وه مال تجارت جو كه میرے اسٹور میں رکھا ہوا ہے اور اس کا بکنا یقینی نہیں ہے، کیوں کہ اس کی مارکیٹ ختم ہو گئی ہے اس پر زکوۃ کا کیا حکم ہے؟
بصورتِ مسئولہ اگر سٹور میں پڑا ہوا مذکورہ مال بالکل ردی (ناکارہ) ہوگیا ہے تو اس پر زکو ۃ نہیں ہے، اور اگر مذکورہ مال بالکل ردی نہیں ہے، بلکہ کچھ نہ کچھ مالیت رکھتا ہے تو جس قدر مالیت رکھتا ہے اس قدر مالیت کو زکوۃ کے نصاب میں شامل کرکے زکوۃ دی جائے گی۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"وأما أموال التجارة فتقدير النصاب فيها بقيمتها من الدنانير والدراهم فلا شيء فيها ما لم تبلغ قيمتها مائتي درهم أو عشرين مثقالا من ذهب فتجب فيها الزكاة، وهذا قول عامة العلماء. "
(كتاب الزكوة، فصل اموال التجارة، ج:2، ص:20، ط:دارالكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144209201843
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن