بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

مالدار لڑکی کا بے روز گار لڑکے سے کورٹ میں نکاح کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں کہ ایک شخص جوکہ ذات سے یوسف زئی ہے اس نے ایک لڑکی سے کورٹ میرج کی جوکہ ذات سے صدیقی ہے نیز نکاح کے وقت لڑکا بےروزگار تھا اور لڑکی کا والد صاحبِ حیثیت تھا تو کیا ایسی صورت میں ان کا نکاح منعقد ہوا یا نہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ اگر عاقلہ بالغہ لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر از خود کورٹ میں جاکر  اپنا نکاح  کفو میں کرتی ہے تو ایسا نکاح احناف کے نزدیک  منعقد ہوجاتا ہے، اگرچہ بغیر  عذر کے ایسا کرنا ناپسندیدہ ہے اور اگر عاقلہ بالغہ لڑکی اولیاء کی اجازت کے بغیر غیر کفو میں نکاح کرتی ہے ، اوراولیاء  اس نکاح پر  راضی نہیں ہوتے   تو اس  صورت میں بھی مفتی ٰبہ قول کے مطابق نکاح تو منعقد ہو جاتا ہے  البتہ اولیاء کو فسخ کا اختیار حاصل ہوتا ہے ۔

لہذا صورتِ مسؤلہ میں اگر عاقلہ بالغہ لڑکی نے  اپنے اولیاء  کی رضامندی کے بغیر کورٹ میں جاکرنکاح کیا ہے یعنی باقاعدہ گواہان کی موجودگی میں  ایجاب وقبول کیا ہے  تو ایسی صورت میں شرعاً  نکاح  تو منعقد ہوگیا ہے، البتہ اگر  لڑکی کے اولیاء  اس بات کے مدعی ہوں  کہ لڑکا غریب ہونے کی وجہ سے لڑکی کا کفو نہیں ہے   تو بچہ کی پیدائش سے پہلے پہلے تک عدالت سے رجوع کر کے  نکاح فسخ کرانے کا اختیار  حاصل ہے،اگر لڑکی کے اولیاء اس نکاح کو فسخ کرانا چاہتے ہیں تو ان کو  عدالت میں شرعی گواہوں کی موجودگی میں اپنے اس دعوے کو ثابت کرنا ہوگا کہ لڑکا غریب ہونے کی وجہ سے لڑکی کا کفو نہیں ہے ،اگر وہ اس کو شرعی گواہوں سے ثابت کر دیتے ہیں تو پھر عدالت لڑکی کے اولیاء کے مطالبے پر مذکورہ نکاح فسخ کردے گی ، اور اگر اولیاء لڑکے کی عدمِ کفاءت عدالت میں شرعی گواہوں سے ثابت نہ کر سکیں تو پھر اولیاء کو فسخِ نکاح کا اختیار حاصل  نہیں ہوگا ،نیز کفو کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا دین،دیانت، مال ونسب، پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو، نیز کفاءت میں مرد کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکے کا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے، لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

" الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلا بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض".

(کتاب النکاح، فصل ولاية الندب والاستحباب فی النکاح، ج:2،ص:247،ط: سعید ) 

الدر المختار مع رد المحتارمیں ہے:

"ونظم العلامة الحموي ما تعتبر فيه الكفاءة فقال: إن الكفاءة في النكاح تكون في ... ست لها بيت بديع قد ضبط نسب وإسلام كذلك حرفة ... حرية وديانة مال فقط".

 (كتاب النكاح، باب الكفاءة،ج:3،ص:86،ط: سعيد)

 الدر المختارمع رد المحتارمیں ہے:

"(وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم في الأصح خانية، وخرج ذوو الأرحام والأم والقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح (ما لم) يسكت حتى (تلد منه) لئلا يضيع الولد". 

(كتاب النكاح، باب الولى،ج:3،ص:56، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100507

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں