بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مالک کی اجازت کے بغیر اس مال کو فروخت کنندہ سے خریدنے کا حکم


سوال

ایک آدمی کی  دبئی میں کارگو کمپنی ہے ، وہ مختلف لوگوں سے مال جمع کرتا ہے اور وئیر ہاؤس میں رکھتاہے ، پھر وہ شخص اس مال کو مالک کی اجازت کے بغیر بیچ کر  بھاگ جاتاہے، یا یہ شخص کسی وجہ سے بھاگ جاتاہے اور  دبئی   کی پولیس وہ پورا وئیر ہاؤس بیچتی ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ  اس مال کو لینا اور آگے فروخت کرنا جائزہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جس شخص کے پاس اور لوگوں نے اپنا  مال بطور امانت رکھا ہے اور وہ شخص  اس مال کو بیچ رہاہو  یا وہ کسی وجہ سے بھاگ جائے اور حکومت اس مال  کو بچ رہی ہو تو اس مال کو مودع( جس کے پاس لوگوں نے اپنا مال بطور امانت رکھاہے) یا حکومت سے  خریدنا جائز نہیں ہے۔

فتاویٰ عالمگیری میں  ہے:

"قال رضي الله عنه لما سألته أن ما يشترى من السوق ويعلم قطعا أنهم يبايعون الأتراك ومن غالب مالهم الحرام ويجري بينهم الربا والعقود الفاسدة كيف يكون فهو على ثلاثة أوجه فكل عين قائمة يغلب على ظنه أنهم أخذوها من الغير بالظلم وباعوها في السوق فإنه لا ينبغي أن يشتري ذلك وإن تداولتها الأيدي والثاني إن علم أن المال الحرام بعينه قائم إلا أنه اختلط بالغير بحيث لا يمكن التمييز عنه فإن على أصل أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - بالخلط يدخل في ملكه إلا أنه لا ينبغي أن يشتري منه حتى يرضى الخصم بدفع العوض فإن اشتراه يدخل في ملكه مع الكراهة والثالث إذا علم أنه لم تبق العين المغصوبة أو المأخوذ بالربا وغيره وإنما باعها لغيره فإن الذي يعلم أنه لم تبق تلك العين جاز له أن يشتري منهم هذا كله من حيث الفتوى أما إذا كان أمكنه أن لا يشتري منهم شيئا كان أولى أن لا يشتري ولعل أنه يتعذر ذلك في بلاد العجم."

(کتاب الکراھیة، الباب الخامس والعشرون، ج:5، ص:364، ط: المطبعة الکبریٰ الأمیریه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607100746

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں