میں اپنی فیملی کے ساتھ تین کمروں کے کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہوں، ہمارے مالک مکان نے سمتبر کے مہینے میں پسٹن پمپ اور اس کی خرید و فیٹنگ کی مد میں ہم سے ایک چوتھائی رقم وصول کی تھی، جو کہ خالصتاً مالک مکان کی ملکیت ہے، اور کرایہ دار کا اس پر کوئی حق نہیں ہے، اسی طرح اکتوبر کے مہینے میں بھی پسٹن پمپ اور اس کی خرید و فیٹنگ کی مد میں ہم سے مزید ستائیس ہزار کے ایک چوتھائی کا تقاضہ کررہا ہے۔
برائے مہربانی شریعت کی روشنی میں ہمیں بتایا جائے کہ ان کا پسٹن پمپ کی رقم کا تقاضہ ایک کرائے دار سے کرنا کس حد تک درست ہے؟جب کہ مکان خالی کرنے کے بعد اس پسٹن پمپ پر بحیثیت کرائے دار کے ہمارا کوئی حق نہیں ہوگا، اس صورت میں مطالبہ کرنا کیسا ہے؟
واضح رہے کہکرایہ داری کا معاہدہ جس میں کرایہ اور مدت باہمی رضامندی سے طے کرلی جاتی ہے، اس معاہدہ ہوجانے کے بعد مالک مکان کے ذمہ امور میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ :’’مالکِ مکان ان تعمیرات و ضروریات کے اخراجات کو برداشت کرے، جن کا تعلق براہِ راست مکان سے ہو، اور اس کا فائدہ مالکِ مکان کو بھی ہو۔ مثلاً عمومی تعمیرات وغیرہ۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے مالکِ مکان نے مکان میں جو پسٹن پمپ لگوایاہے، اس کا استعمال براہِ راست مکان سے ہوتاہے، کیوں کہ مذکورہ کرایہ دار کے اس گھر سے جانے کے بعد کرایہ دار اس پسٹن پمپ کو اپنے ساتھ دوسرے گھر لے کر نہیں جاسکتا، بلکہ وہ اسی گھر میں ہی لگارہے گا، نیز کرایہ پر گھر دیتے وقت یہ بھی ضروری ہے کہ مالک مکان گھر کرایہ دار کے حوالے کرتے وقت گھر کی تمام بنیادی ضروریات بھی فراہم کرے ، جیسے: پانی، گیس ، بجلی وغیرہ کی فراہمی۔الا یہ کہ معاہدہ کرتے وقت استثناء کرلے، تو پھر مالک مکان کی ذمہ داری نہیں ہے،
اور پسٹن پمپ سے بھی پانی فراہم کیا جاتاہے، اسی لیے اس کی ذمہ داری تنِ تنہا مالکِ مکان کے ذمہ ہے، کسی بھی کرایہ دار سے اس مد میں مطالبہ کرنے کا شرعاً کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
تاہم اگر گھر کرایہ پر دیتے وقت مالک مکان نے کرایہ دار سے اس قسم کا کوئی معاہدہ کیا ہو، کہ وہ گھر میں استعمال ہونے والی ضرورت کی بنیادی چیزوں کے خرچہ میں شریک ہوگا، اور معاہدہ کرتے وقت کرایہ دار نے اس بات پر رضامندی کا اظہار بھی کرلیا تھا، تو اس صورت میں پہلے سے معاہدہ ہوجانے کی وجہ سے مالکِ مکان کرایہ دار سے پسٹن پمپ کے خرید و فروخت اور فیٹنگ کے اخراجات میں سے رقم کا مطالبہ کرسکتاہے، لیکن وہ بھی معاہدہ میں طے شدہ مقدار کے بقدر کرسکتاہے، اس سے زیادہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
مجلة الأحكام العدلية میں ہے:
"إعمال الأشياء التي تخل بالمنفعة المقصودة عائدة على الآجر: مثلاً تطهير الرحى على صاحبها، كذلك تعمير الدار وطرق الماء وإصلاح منافذه، وإنشاء الأشياء التي تخل بالسكنى وسائر الأمور التي تتعلق بالبناء كلها لازمة على صاحب الدار."
(الکتاب الأول فی البیوع، الباب السادس، الفصل الأول في بيان مسائل تتعلق بإجارة العقار وأحكامها، ص: 99، ط: نور محمد)
وفیه أیضاً:
"التعميرات التي أنشأها المستأجر بإذن الآجر إن كانت عائدةً لإصلاح المأجور وصيانته عن تطرق الخلل كتنظيم الكرميد (أي القرميد وهو نوع من الآجر يوضع على السطوح لحفظه من المطر) فالمستأجر يأخذ مصروفات هذه التعميرات من الآجر وإن لم يجر بينهما شرط على أخذه وإن كانت عائدةً لمنافع المستأجر فقط كتعمير المطابخ فليس للمستأجر أخذ مصروفاتها ما لم يذكر شرط أخذها بينهما."
(الکتاب الأول فی البیوع، الباب السادس، الفصل الثاني: في إجارة العروض، ص: 100، ط: نور محمد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404100960
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن