ایک بائع نے اپنی ذاتی ملکیت فروخت کرنے کے لیے قریب ایک سال سےا شتہار لگایا،اور ایک مشتری سے زمین کا سودا ہوا، اور اسی مذکورہ مشتری سے بائع نے بیعانہ(ٹوکن) کی صورت میں دو ہفتے قبل پچاس ہزار بھی وصول کیے، اب اس بیع وشراء میں بروز جمعرات 12 دسمبرکو یہ مسئلہ درپیش آیا کہ ایک تیسرا شخص جو اس علاقہ کا بااثر آدمی (وڈیرہ) ہے، ان موصوف کا کہنا ہے کہ یہ زمین بائع مجھے ہی دے گا، وگرنہ جو شخص اس زمین کو لے گا ،میں اس کو مذکورہ زمین میں رہنے نہیں دوں گا،یہ موصوف(وڈیرہ) بھی وہی قیمت اداکرنے کو تیار ہے، جو قیمت بائع اور مشتری اول میں طے پائی تھی، بہر صورت بائع نے خیر اس میں جانی کہ زمین اس دوسرے شخص کو دی جائے تا کہ بعد میں کوئی مسئلہ نہ ہو،لیکن جب بائع مشتری اول کے پاس اس مسئلہ کو لے کر گیا،تو اولاً وہ بائع اس بات کو تسلیم ہی نہیں کررہے تھے، اور بہت سمجھانے کے بعد وہ اس بات آمادہ ہوا کہ وہ یعنی مشتری اول اپنے طور تحقیق کرے گا، اور جب تحقیق کے بعد مسئلہ بعینہ اسی طرح تھا، تو اب مشتری اول کہتا ہے کہ بائع کے پاس دو صورتیں ہیں: زمین مجھے ہی دے لیکن قیمت جو طے ہوئی تھی، اس پر نہیں،بلکہ اس سے کم قیمت پر نقص آنے کی وجہ سے۔اور دوسری صورت یہ ہےکہ میں نے زمین خریدنے کےلیے اپنا سونا سستے میں فروخت کیا تھا تو مجھے اس میں نقصان ہوا ہے،اب جب بائع مجھے زمین نہیں دےگا، تو مجھے میرا سونا واپس دلائے یعنی نقصان بائع بھرے گا، اور بائع کہتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو یہ زمین اسی قیمت پر جو پہلے طے ہوئی تھی، اسی پر لے لیں،اس سے کم پر نہیں اور بعد میں کوئی بھی مسئلہ ہو تو میں یعنی بائع ذمہ دار نہیں اور چاہیں تو آپ یعنی مشتری اول نے جو بیعانہ دیا تھا وہ واپس لے لیں۔
زمین اس تیسرے شخص کو نہ دینے کی صورت میں زمین پر قبضہ کا خدشہ بہت زیادہ ہے۔
صورتِ مسئولہ میں بائع اور مشتری اول کے درمیان جب زمین کا سودا طے ہوچکاہے، اور مشتری اول پچاس ہزار روپے بیعانہ بھی ادا کرچکا ہے، تو مشتری اول اس زمین کا مالک بن چکا ہے، اب تیسرے شخص(وڈیرے) کاسودا ہوجانے کے بعد اس زمین کے خریدنے پر اصرار کرنا اور نہ دینے کی صورت میں نقصان پہنچانے کی دھمکی دینا ظلم وزیادتی ہےجو کہ حرام ہے،احادیث میں اس پر بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہے،ایک حدیث میں حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص(کسی کی) بالشت بھر زمین بھی از راہِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پرڈالی جائے گی۔ (مظاہرحق)
باقی بائع اور مشتری اول باہمی رضامندی سے یہ سودا فسخ کرنا چاہتے ہیں تو جس قیمت پر سودا ہوا تھا، اسی قیمت پر فسخ کیا جائے گا،اور مشتری صرف اور صرف ادا کردہ بیعانہ کا حق دار ہوگا،لہذا مشتری کی طرف سے پیش کردہ مذکورہ دونوں صورتیں غلط ہیں۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:من أخذ شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين."
(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الأول، ج:1، ص: 887، ط: المكتب الإسلامي)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
البیع... أما تعريفه فمبادلة المال بالمال بالتراضي كذا في الكافي وأما ركنه فنوعان أحدهما الإيجاب والقبول...وأما حكمه فثبوت الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع."
(كتاب البيوع، الباب الأول، ج:3، ص: 2۔3، ط: دارالفکر)
کنز الدقائق میں ہے:
"(قوله، وتصح بمثل الثمن الأول وشرط الأكثر أو الأقل بلا تعيب، وجنس آخر لغو، ولزمه الثمن الأول)، وهذا عند أبي حنيفة لأن الفسخ يرد على عين ما يرد عليه العقد فاشتراط خلافه باطل، ولا تبطل الإقالة كما قدمنا قيد بقوله بلا تعيب إذ لو تعيب بعده جاز اشتراط الأقل، ويجعل الحط بإزاء ما فات بالعيب، ولا بد أن يكون النقصان بقدر حصة الفائت، ولا يجوز أن ينقص من الثمن أكثر منه كذا في فتح القدير."
(كتاب البيع، باب الإقالة، ج: 6، ص: 113، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606101063
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن