ہمارے والد صاحب کے چار گھر تھے، اس میں سے ایک گھر انہوں نے نانا کے نام، ایک گھر نانی کے نام اور ایک گھر اپنے بھائی کے نام کر دیا تھا، نیز ان سب لوگوں کو ان گھروں پر قبضہ بھی دے دیا تھا، جب کہ ایک گھر اپنے بیوی بچوں کے لیے رکھا، جس میں انتقال تک وہ خود بھی رہتے تھے، تاہم وہ اپنی اہلیہ کو بار بار کہتے تھے کہ یہ گھر اپنے نام کرالو، مگر انہوں نے سستی کی وجہ سے نام نہیں کرایا۔سوال یہ ہے کہ جو گھر انہوں نے اپنی زندگی میں تقسیم کیے تھے، ان کا کیا حکم ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً آپ کے والد نے نانا، نانی اور اپنے بھائی کے نام پر ایک ایک گھر کر دیا تھا اور ان میں سے ہر ایک کو ان کے نامزد کردہ گھر پر مالکانہ قبضہ واختیاربھی دے دیا تھا، تو ہبہ تام ہونے کی وجہ سے مذکورہ افراد اپنے اپنے گھر کے شرعاً مالک بن گئے تھے، لہذا مرحوم کے ورثاء کا ان گھروں میں کوئی حق نہیں ہوگا، اور جس گھر میں والد مرحوم ساری زندگی رہائش پذیر رہے، وہ گھر مرحوم کے ترکہ میں شامل ہے، جس میں مرحوم کے تمام شرعی ورثاء حصصِ شرعیہ کے تناسب سے شریک ہوں گے، وارثوں کی تفصیل لکھ کر دوبارہ تقسیم معلوم کر لیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."
"(قوله: بالقبض) فيشترط القبض قبل الموت."
(كتاب الهبة، ج: 5، ص: 590، ط: ايچ ايم سعيد)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته» ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله - سبحانه وتعالى - أعلم."
(كتاب الحدود، فصل في بيان صفات الحدود، ج: 7، ص: 57، ط: دار الكتب العلمية)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:
"المادة (٢ ٩ ٠ ١) - (كما تكون أعيان المتوفى المتروكة مشتركة بين وارثيه على حسب حصصهم... الخ)
أعيان المتوفى المتروكة مشتركة بين - وارثيه، على حسب حصصهم الإرثية بموجب علم الفرائض أو بين الموصى لهم بموجب أحكام المسائل المتعلقة بالوصية."
(الكتاب العاشر الشركات، الباب الأول في بيان شركة الملك، الفصل الثالث في بيان الديون المشتركة، ج: 3، ص: 55، ط: دار الجيل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100257
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن