ہمارے علاقے جنوبی وزیرستان میں جو عام جنگلات ہیں اسے گاؤں والوں نے آپس میں تقسیم کیا ہوا ہے، ہر ہر قبیلے کا اپنا اپنا حصّہ ہوتاہے، اور یہ تقسیم ہمارے آباء و اجداد کی طرف سے چلی آرہی ہے، عام طور پر گاؤں والوں کی طرف سے ان جنگلات کے کاٹنے پر پابندی ہوتی ہے، صرف ایک خاص زمانے میں کاٹنے کی اجازت ہے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ بسا اوقات ایک قبیلے والے دوسرے قبیلے کے حصّے سے لکڑیاں کاٹ لیتے ہیں، کیا اس طرح کرنا ان کےلیے جائز ہوگا یا نہیں؟ جب کہ دوسرے قبیلے والے اگر اسے لکڑیاں کاٹتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیں تو اس سے جرمانہ وصول کرتے ہیں، کیا یہ جرمانہ لینا ان کےلیے درست ہے؟ مگر خشک لکڑیوں کے کاٹنے کی عام اجازت ہوتی ہے۔
قبائلی نظام کے تحت جنگلات کی تقسیم قبائل نے آپس میں بطورِ ملک کے کی ہے اور ہر قبیلے والے اپنے حصّےکے مالک تصور کیے جاتے ہیں تو ایک قبیلے کے کسی بھی فرد کو دوسرے قبیلے کے حصّے کے جنگلات سے لکڑیاں کاٹنے کی اجازت نہیں ہے، اور خلاف ورزی کرنے والے سے نقصان کی تلافی کےلیے رقم وصول کرنا جائز ہے۔ ہاں اگر کوئی خلاف ورزی کرتے ہوئے پکڑا جائے اور اس نے ابھی تک لکڑی نہیں کاٹی ہو تو محض خلاف ورزی کی بنا پر اس سے مالی جرمانہ وصول کرنا شرعًا جائز نہیں ہوگا۔
الخراج للإمام أبی يوسف میں ہے:
"ولو لم يكن لأهل هذه القرية الذين يكون لهم هذه المروج وفي ملكهم موضع مسرح ومرعى لدوابهم ومواشيهم غير هذه المروج، كما لأهل كل قرية من قرى السهل والجبل فإن لكل قرية من قرى السهل والجبل موضع مسرح ومرعى ومحتطب في أيديهم وينسب إليهم وترعى فيهم مواشيهم ودوابهم ويحتطبون منه، وكانوا متى أذنوا للناس في رعي تلك المروج والاحتطاب منها، وأضر ذلك بهم وبمواشيهم ودوابهم كان لهم أن يمنعوا كل من أراد أن يرعى فيها أو يحتطب منها، وإن كان لهم مرعى وموضع احتطاب حولهم ليس له ملك؛ فإنه لا ينبغي لهم ولا يحل لهم أن يمنعوا الاحتطاب والرعي من الناس........
وإذا كان الحطب في المروج وهي في ملك إنسان؛ فليس لأحد أن يحتطب منها إلا بإذنه؛ فإن احتطب منها ضمن قيمة ذلك لصاحبه؛ فإن لم يكن في تلك لأحد ملك فلا بأس أن يحتطب منه جميع الناس، ولا بأس أن يحتطب ما لم يعلم أن له مالكا."
(فصل: في الكلأ والمروج، ص:117،118، ط:المكتبة الأزهرية للتراث مصر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"والحطب في ملك رجل ليس لأحد أن يحتطبه بغير إذنه، وإن كان غير ملك فلا بأس به، ولا يضر نسبته إلى قرية أو جماعة ما لم يعلم أن ذلك ملك لهم."
(كتاب إحياء الموات، فصل الشرب، ج:6، ص:440، ط:ايج ايم سعيد كراتشي)
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144512100214
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن