1-میری دادی نےاپنےوالدسےمیراث میں ملنےوالےحصہ کومیرےوالدکی شادی کےوقت میری والدہ کو بطورحقِ مہر لکھ کردیا تھا ، جن میں سے4زمینیں کاغذاتی کاروائی کےساتھ میری والدہ کودےدی گئی تھیں، لیکن ان میں سےایک زمین میرےدادا کے کھیت میں استعمال ہوتی رہی، اورپھر1980ء میں دادانے اپنےنام پرکروادی، جس کی وجہ سےاب یہ زمین میرےچچاؤں کےقبضےمیں ہے، توکیامیں اپنی والدہ کےکہنےپراس زمین کادعویٰ کرسکتاہوں؟
2-میرےچچانےمیرےداداکی زندگی میں اپناحصہ مانگاتھا،اوریہ کہاتھاکہ:مجھےابھی حصہ دےدو، بعدمیں میراث میں سےحصہ نہیں لوں گا، چناں چہ دادانےاپنی جائیدادمیں سےجتناان کاحصہ بنتاتھاوہ ان کودےدیاتھا، توکیااب یہ داداکےجائیداد میں حصہ کادعوی کرسکتاہے؟
1-صورتِ مسئولہ میں اگر دادی نےبہوکوحقّ مہر میں اپنی مرضی سے(یعنی بیٹےکےحکم کےبغیر) 4زمینیں لکھواکردی ہیں، اورکاغذائی کاروائی بھی ہوئی ہے، تواب سائل کےچچاؤں کااس زمین پرقابض رہناجائزنہیں، اصل مالکان کے حوالہ کرنا ضروری ہے۔
2-جب سائل کے چچااپنےوالدکی زندگی میں اپناحصہ وصول کرچکے ہیں، اوروالد نےبھی اس بنیاد پران کوحصہ دیاتھاکہ بعدمیں وہ میراث میں حصہ نہیں مانگیں گے، تواب میراث میں اس کاکوئی حصہ نہیں بنتا، اورنہ ہی اس کا یہ دعویٰ صحیح ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله وصح ضمان الولي مهرها) أي سواء ولي الزوج أو الزوجة صغيرين كانا أو كبيرين، أما ضمان ولي الكبير منهما فظاهر لأنه كالأجنبي. ثم إن كان بأمره رجع وإلا لا.
وأما ولي الصغيرين فلأنه سفير ومعبر، فإذا مات كان لها أن ترجع في تركته ولباقي الورثة الرجوع في نصيب الصغير خلافا لزفر لأن الكفالة صدرت بأمر معتبر من المكفول عنه لثبوت ولاية الأب عليه، فإذن الأب إذن منه معتبر، وإقدامه على الكفالة دلالة ذلك من جهته نهر عن الفتح."
(کتاب النکاح، باب المھر، مطلب في ضمان الولي المهر، 140/3، ط:سعید)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"واعلم أن الناطفي ذكر عن بعض أشياخه أن المريض إذا عين لواحد من الورثة شيئا كالدار على أن لا يكون له في سائر التركة حق يجوز."
(کتاب الوصایا، 655/6، ط:سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144601101408
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن