بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ماں کی پرورش میں اولاد کے حقوق کے ضائع ہونے کی وجہ سے ماں کا حق حضانت ساقط ہوجاتا ہے


سوال

میرے بھائی کی شادی جنوری 2025ء میں ہوئی، شادی کے ایک مہینہ بعد ہی ان کے مسائل شروع ہوگئے، لڑکی کے اخلاق درست نہیں تھے، بھائی مسجد میں خادم تھا، ہفتہ میں دو دن گھر آتا تھا، اسی وجہ سے لڑکی  ہفتہ میں صرف دو دن بھائی کے ساتھ رہتی تھی اور باقی دن اپنی ماں کے گھر جاتی تھی، لڑکی سگریٹ نوشی کی عادی تھی، اس نے اپنی ماں کے ساتھ مل کر  بھائی کو اپنی طرف کر لیاتھا، وہ ہماری بات بالکل  بھی  نہیں مانتاتھا، بہر حال جب بیوی حاملہ ہوئی تو بات بات پر دھمکی دینے لگی کہ میں اپنے ساتھ کچھ کرلوں گی، پھر انہوں نے دباؤ ڈال کر میرے بھائی کی لگی ہوئی نوکری بھی چھڑوادی، ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ بچی کی دیکھ بھال کرے گا، بچی کی ولادت کے بعد تقریبًا پندرہ بیس دن تک لڑکی نے بچی کو اپنا دودھ پلایا، پھر ماں کے گھر جانے کے بعد سے ڈبے والا دودھ شروع کروایا اور اپنا دودھ پلانا بندکردیا، اب تقریبًا ایک سال ہونے والا ہے لڑکی ماں کے گھر پر بیٹھی ہے،  لڑکی کی حالت اب یہ ہے کہ ٹک ٹاک پر ویڈیوز بناتی ہے، پارکوں میں جانا، غیر مردوں کے ساتھ ملنا، ویڈیوز بنانا، سگریٹ نوشی کرنا   اور شیشہ پینا اس کی عادت بن چکا ہے، بلکہ بعض جگہوں سے شراب نوشی کی بھی رپورٹ ہے، بہر حال لڑکی اب خلع کا مطالبہ کررہی ہے اور شوہر بھی  خلع دینے پر راضی ہے۔

اب پوچھنا صرف یہ ہے کہ میاں بیوی کی تفریق(جدائی) کے بعد  کیا ایسی صورتِ حال میں شوہر بچی کو اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے؟ کیوں کہ  اس بات کا یقین ہے کہ اگر بچی ماں اور نانی  کی تربیت میں رہی تو اخلاق وکردار  اور حقوق سب تباہ ہوجائیں گے، ابھی بچی کی عمر نو مہینے ہے، یعنی بچی کی دادی کی پرورش میں رکھ کر بچی کا باپ اس کی دیکھ بھال کرسکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ میاں بیوی کے درمیان تفریق ہوجانے کے بعدبچی  کی پرورش کے متعلق شرعی ضابطہ یہ ہے کہ:نو سال کی عمر ہونے تک بچی کی ماں کو اس کی  پرورش کا حق حاصل ہوتا ہے،  نوسال کی عمر ہوجانے کے بعد باپ کو اپنی تحویل میں لینے کا حق  حاصل ہوتا ہے، اور بچی کا نان نفقہ  بچی کی شادی ہونے تک اس کے باپ  ہی کے ذمہ  ہوتا ہے، خواہ بچی ماں کے پاس رہے یا باپ کے پاس رہے، تاہم ماں کی زیرِ پرورش کے زمانے میں  اگر ماں نے کسی ایسے شخص سے شادی کرلی جو بچی کے حق میں اجنبی(غیر محرم) ہو تو اس سے ماں کی پرورش کاحق ساقط ہوجاتاہے، اسی طرح اگر کوئی اور وجہ حقِ پرورش کو ساقط کرنے والی پائی جائے توبھی ما ں کا حق پرورش ساقط ہوجاتاہے، اور یہ حق بچی کی نانی، دادی، خالہ اور پھوپی کو بالترتیب حاصل ہوتاہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں واقعۃً اگر بچی  کی والدہ مذکورہ چیزوں یعنی پارکوں میں غیر مردوں کے ساتھ جانا، ٹک ٹاک بنانا، سگریٹ نوشی  اورشیشہ وغیرہ پینے میں ملوث ہے تو  اس سے ماں کاحقِ پرورش ساقط ہوگیا اور یہ حق بچی کی نانی کو حاصل ہوگا، لہذا اگر بچی کی نانی بچی کی صحیح تربیت اس کی ماں کے بے راہ روی کے اثرات سے متاثر ہوئے بغیر   کرنے پر قدرت رکھتی ہےتو بچی کو اپنی تربیت میں رکھ لے، لیکن اگر وہ اس پر  قادر نہ ہو تو نانی کا بھی حقِ پرورش ساقط ہوجائے گا اور پھر یہ حق بچی کی دادی کو حاصل ہوگا، البتہ بچی کا نان نفقہ بچی کے والد ہی کے ذمہ ہوگا، خواہ بچی نانی کے پاس رہے یا دادی کے پاس رهے۔

  فتاوی شامی میں ہے:

"(تثبت للأم) النسبية (ولو) كتابية، أو مجوسية أو (بعد الفرقة إلا أن تكون مرتدة) فحتى تسلم؛ لأنها تحبس (أو فاجرة) فجورا يضيع الولد به كزنا وغناء وسرقة ونياحة كما في البحر والنهر بحثاقال المصنف: والذي يظهر العمل بإطلاقهم كما هو مذهب الشافعي أن الفاسقة بترك الصلاة لا حضانة لها. وفي القنية: الأم أحق بالولد ولو سيئة السيرة معروفة بالفجور ما لم يعقل ذلك (أو غير مأمونة) ذكره في المجتبى بأن تخرج كل وقت وتترك الولد ضائعا ...

 (قوله: بأن تخرج كل وقت إلخ) المراد كثرة الخروج، لأن المدار على ترك الولد ضائعا والولد في حكم الأمانة عندها، ومضيع الأمانة لا يستأمن، ولا يلزم أن يكون خروجها لمعصية حتى يستغني عنه بما قبله فإنه قد يكون لغيرها؛ كما لو كانت قابلة، أو غاسلة، أو بلانة أو نحو ذلك، ولذا قال في الفتح: إن كانت فاسقة أو تخرج كل وقت إلخ فعطفه على الفاسقة يفيد ما قلنا فافهم."

(کتاب الطلاق،باب الحضانة، ج:3، ص:555، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأمإلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقة أو مغنية أو نائحة فلا حق لها هكذا في النهر الفائق ...وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت،فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير."

(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر فی الحضانة، ج:1، ص:541، ط: دار الفكر)

کفایت المفتی میں ہے:

 مطلقہ کو اپنی لڑکی کا حق پرورش حاصل ہے ، نفقہ باپ کے ذمہ ہو گا،  لڑکی کے بالغ ہونے تک یہ حق اس کو ہے  بشر طےکہ ماں لڑکی کے کسی غیر محرم سے نکاح نہ کرلے یا اور کسی وجہ سے حق حضانت ساقط نہ ہو جائے ۔

(کتاب الطلاق، ج:6، ص:427، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601102643

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں