بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

منگنی ٹوٹنے كی صورت ميں لڑكی پر عدت لازم نہيں ہے


سوال

 سوال یہ ہےکہ ہم پٹھانوں میں نکاح کا طریقہ یہ ہے کہ گھر والے چند رشتے داروں کے ساتھ لڑکی والوں کے پاس جاتے ہیں، اور رواج کے مطابق کپڑے مٹھائی اور دیگر سامان دیا جاتا ہے اور ایک مولوی صاحب زبانی کلامی بغیر قانونی دستاویزات کے نکاح پڑھاتا ہے ۔جس سے بات پکی سمجھی جاتی ہے۔مگر ایک انگوٹھی کے اختلاف پر ایک دو ہفتے بعد کال کرکے لڑکے والے کہتے ہیں کہ ہم لڑکی نہیں دے رہے آپ لوگوں نے جھوٹ سے کام لیا ہے۔ اب پوچھنا یہ تھا کہ آیا اس معاملے کو ختم کرنے پر لڑکی پر کوئی عدت وغیرہ لازم ہے یا نہیں؟ بس ویسے ہی زبان سے لڑکی کے گھر والوں کے کہنے سے ہی اور لڑکے کے گھر والوں کے ماننے سے ہی رشتہ ختم ہوگیا؟ برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

 واضح رہے کہ وعدہ نکاح (منگنی) کے اوپر نکاح کے احکامات جاری نہیں ہوتے، لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ طریقۂ کار کو اگر عرف میں  وعدہ نکاح (منگنی) سمجھا جاتاہے، اور بعد میں رخصتی سے پہلے باقاعدہ   نکاح بھی پڑھایا جاتا ہے تو لڑکی والوں کے منع کرنے اور لڑکے والوں کے ماننے سے منگنی  ختم ہو جائے گی۔ اور لڑکی پر  کوئی عدت لازم نہیں ہوگی اور نہ ہی لڑکے پر مہر واجب ہوگا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح۔"

(كتاب النكاح، ج:3، ص:11، ط:ايچ ايم سعيد)

کفایت المفتی میں ہے:

’’(سوال)مضافات پشاور اور ماورائے سرحد میں یہ عام بات ہے کہ ایک شخص نے کسی کے ہاں اپنے لڑکے کے واسطے نکاح کے لئے بات چیت کی اور لڑکے والے کچھ زیور، کپڑے، مٹھائی لڑکی والوں کے پاس لے جاتے ہیں ۔ اگر لڑکی والے اشیائے مذکورہ لے لیں تو پٹھانوں کے رواج میں یہ بات پکی ہوگئی جس کو ان کی اصطلاح میں کوجدن (منگنی) کہتے ہیں ۔ لڑکی کا ولی تین چار آدمیوں کے سامنے اقرار کر کے کہتا ہے کہ میں نے لڑکی اس لڑکے کو دے دی۔ لڑکا لڑکی کے گھر میں آتا رہتا ہے ۔ اس کے بعد اگر لڑکی کا ولی منگنی سے انکار کر کے لڑکی کا نکاح دوسری جگہ کر دے تو شرعاً جائز ہے یا نہیں۔ واضح رہے کہ اس منگنی میں خطبہ مسنونہ اورمہر وغیرہ کچھ نہ تھا ۔ صرف بات ٹھہرائی گئی تھی۔ یہاں کا طبقہ صوفیان اس کو نکاح ٹھہراتے ہیں ۔ 

 المستفتی نمبر ۲۵۲ مولوی عبدالوہاب ۔خرکی۔ ۵ ذی الحجہ سن ۱۳۵۲ھ م ۲۱ مارچ سن ۳۴ء

(جواب )یہ نکاح نہیں ہے ۔ وعدہ نکاح ہے ۔ اگر اس کے بعد بلا وجہ معقول لڑکی والا لڑکی کو دوسری جگہ بیاہ دے تو وعدہ خلافی کا مجرم ہوگا۔مگر دوسری جگہ نکاح درست ہوجائے گا۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ‘‘

(كتاب النكاح، دوسرا باب منگني، ج:5،ص:48، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں