بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

منگنی میں لڑکی والوں کی طرف سے بعض شرائط کا حکم


سوال

منگنی میں جو شرائط لڑکی والوں کی طرف سے لکھی جاتی ہیں کہ مہر لاکھ یا دو لاکھ روپے   ہوگا ، لڑکی کےلیے دو کمرے کا گھر ہوگا اور اگر کبھی   میاں بیوی میں ناچاقی    ہوگی تو پھر لڑکی  کو ماہانہ دس ہزار روپے دیے جائیں گےیا طلاق کی صورت میں مخصوص رقم عائد کرنا  ۔کیا مذکورہ شرائط طے کرنا شرعا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

مہر عورت کا شرعی حق ہے اور مہر کی رقم طے کرنے کا معاملہ شریعت نے جانبین کی رضامندی پر رکھا ہے۔ لڑکی اور لڑکے والے باہمی مشورے سے  شوہر کی استطاعت کو   مد نظر رکھتے ہوئے  جو مہر طے کرلیں شریعت نے اسی کا اعتبار کیا ہے بشرطیکہ وہ مہر دس درہم سے کم نہ ہو جس کی مقدار 30.618 گرام  چاندی یا اس کی  موجودہ قیمت ہے، لہذا صورت مسئولہ میں  اگرلڑکی والوں کی جانب سے  مہر کی رقم لاکھ یا دو لاکھ روپے مقرر کرنا  شوہر کی استطاعت و حیثیت  کے موافق ہو  تو مہر میں یہ  رقم  مقرر کرنا جائز ہے اور اگر اس قدر استطاعت نہ ہو تومحض نام و نمود کے لیے  بھاری مہر رکھنا پسندیدہ نہیں ہے ۔

  شوہر  پر بیوی کو رہائش کے لیے  الگ کمرہ دینا(جس میں رہائش کے علاوہ دیگر ضروریات، کچن، غسل خانہ اور بیت الخلا موجود ہو)  لازم ہے ،اس کےعلاوہ نکاح کے موقع پر الگ سے دو کمروں کی شرط لگانا  مناسب نہیں ۔

میاں بیوی میں جدائی یعنی طلاق  واقع ہونے کی صورت میں لڑکے پر  مالی جرمانہ عائد کرنا   شرعاً جائز نہیں ہے ،البتہ باہمی ناچاقی کی صورت میں عورت روٹھ کر اپنے میکے چلی جائے اور قصور عورت کا ہو تو اس صورت میں وہ نان و نفقہ کی شرعا مستحق نہیں ہوتی ہے، البتہ اگر قصور مرد کا ہو اور مرد  نے اپنی اجازت سے اسے میکے بھیجا ہو یا عورت مرد کی اجازت سے اپنے میکے گئی ہو  تو اس صورت میں مرد اپنی استطاعت کے موافق نان و نفقہ دینے کا پابند ہوگا۔

در مختار میں ہے :

"أقله عشرة دراهم؛ لحدیث البیهقي وغیره: لا مهر أقل من عشرة دراهم … ویجب الأكثر أي بالغاً ما بلغ منها إن سمیٰ الأکثر."

(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، باب المھر،ج:3،ص:101ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(و) الحرة (مهر مثلها) الشرعي (مهر مثلها) اللغوي: أي مهر امرأة تماثلها (من قوم أبيها) لا أمها إن لم تكن من قومه كبنت عمه. وفي الخلاصة: يعتبر بأخواتها وعماتها، فإن لم يكن فبنت الشقيقة وبنت العم انتهى ومفاده اعتبار الترتيب فليحفظ،وتعتبر المماثلة في الأوصاف (وقت العقد سنا وجمالا ومالا وبلدا وعصرا وعقلا ودينا وبكارة وثيوبة وعفة وعلما وأدبا وكمال خلق) وعدم ولد. ويعتبر حال الزوج أيضا، ذكره الكمال۔۔۔(فإن لم يوجد من قبيلة أبيها فمن الأجانب) أي فمن قبيلة تماثل قبيلة أبيها."

(رد المحتارمع الدر المختار  ،کتاب الطلاق ،باب المہر،ج:3،ص:137،ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك."

 (کتاب الطلاق،الباب السابع عشر في النفقات،ج:1،ص:556،ط:رشیدیہ)

سنن ترمذی ہے : 

قال  كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف المزني ، عن أبيه ، عن جده ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : " الصلح جائز بين المسلمين , إلا صلحا حرم حلالا،  أو أحل حراما، والمسلمون على شروطهم إلا شرطا حرم حلالا , أو أحل حراما " . 

"ترجمہ :عمرو  بن عوف مزنی رضی الله عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صلح مسلمانوں  کے درمیان نافذ ہو گی سوائے ایسی صلح کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال۔ اور مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں، سوائے ایسی شرط کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال۔"

 (سنن ترمذی،ج:3،ص:185،ط:دار الرسالۃ العالمیۃ )

رد المحتار میں ہے :

"(لا بأخذ مال في المذهب)

مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه."

(كتاب الحدود،‌‌ باب التعزير، ج: 4، ص: 61، ط: رشیدیہ )

فتاوی شامی میں ہے : 

"(لا) نفقة لأحد عشر: ۔۔۔۔۔۔۔۔ و (خارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتى تعود ولو بعد سفره خلافا للشافعي، والقول لها في عدم النشوز بيمينها، وتسقط به المفروضة لا المستدانة في الأصح كالموت، قيد بالخروج؛ لأنها لو مانعته من الوطء لم تكن ناشزة."

(الدر المختار مع رد المحتار ، کتاب الطلاق،باب النفقہ ،ج:3،ص: 576 ،ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144608101626

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں