میں ایک کاروبار کرنا چاہتا ہوں، جس کی صورت یہ ہے کہ میں کمپنی سے آٹا نقد 4000 کی بوری خریدوں گا اور دوکاندار کو 4100 کی اد ھار پر فروخت کروں گا اورخریدنےکی صورت میں یہ بھی ہوتی ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ آٹا کس کمپنی کا ہے اور کتنے کلو فی بوری میں ہے، اب میں گھر بیٹھے کمپنی والے کو فون کرتاہوں کہ اتنی بوری آپ فلاں دوکاندار کو پہنچادو، وہ کمپنی والے اپنی گاڑی میں وہ آٹا اس دوکاندار کو پہنچادیتے ہیں، میں مبیع پر قبضہ نہیں کرتا ہوں، کیا اس طرح کا روبار کرنا درست ہے یا نہیں ؟ راہ نمائی فرمائیں ۔
واضح رہے کہ کوئی بھی منقولی چیز خریدنے کے بعد اپنے قبضہ میں لینے سے پہلے آگے بیچنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں آٹے کی بوریوں پر قبضہ کیے بغیر آگے فروخت کرنا جا ئز نہیں ہے ؛کیوں کہ یہ بیع قبل القبض ہے اوربیع قبل القبض جائز نہیں ،یعنی جب تک آٹے کی بوریوں پر سائل کا قبضہ نہیں ہوتا ، تو اس کو آگے فروخت کرنا جائز نہیں، لہذا سائل کے لیے مذکورہ طریقہ سے کاروبارکرنا جائزنہیں ،سائل کو چاہیے کہ آٹے کی بوریوں کو قبضہ وملکیت میں لاکر پھر آگے دوسرے دوکاندار پر منافع کے ساتھ فروخت کرے تو ایسی صورت میں یہ کاروبار کرنا جائز ہوگا۔
اس کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ سائل اپنی گاڑی والا کمپنی بھیجے اور آپ کا وکیل آٹا وصول کرے اور پھر دوکان دار کو فروخت کردے اور اس دوکان دار کے پاس بوریاں اتاردے۔
مرقاة المفاتيح میں ہے:
"وعن ابن عباس قال: أما الذي نهى عنه النبي صلى الله عليه وسلم فهو الطعام) أي جنس الحبوب (أن يباع حتى يقبض) بصيغة المجهول قال ابن عباس ولا أحسب) بكسر السين وفتحها أي لا أظن (كل شيء إلا مثله) أي مثل الطعام في أنه لا يجوز للمشتري أن يبيعه حتى يقبضه. قال ابن الملك: والأظهر أنه من قول ابن عباس. (متفق عليه)."
(كتاب البيوع، باب المنهي عنها من البيوع، 6/ 67، ط:دار الكتب العلمية بيروت)
تبین الحقائق میں ہے:
"قال رحمه الله (لا بيع المنقول) أي لا يجوز بيع المنقول قبل القبض لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام «إذا ابتعت طعاما فلا تبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا."
(کتاب البیوع، باب التولية، فصل بيع العقار قبل قبضه، ج:4 ص:80 ط: رشیدیه)
فتاوی شامی میں ہے:
"(بيع عقار لا يخشى هلاكه قبل قبضه لا بیع منقول ) قبل قبضه ولو من بائعه."
(فصل فی التصرف فی المبیع، ص:147، ج:5، ط:سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603102203
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن