میں آفس میں کام کر رہا ہوں اور موبائل قسطوں میں دے رہا ہوں کیا یہ طریقہ صحیح ہے ،کہ میں بندے سے کہتا ہوں کہ 30% نفع لوں گا اور باقی کوئی شرط نہیں لگائی اور نہ کوئی جرمانہ رکھاہے، میں اس بندے کو دکان پہ بھیجتا ہوں، اس کو موبائل مل جاتا ہے اور دکان دار کو میں موبائل کےپیسے سینڈ کرتا ہوں، اکاؤنٹ میں، تو کیا یہ کام میں صحیح کر رہا ہوں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل دکان دار سے موبائل خریدنے سے پہلے ہی موبائل لینے والے بندے کے ساتھ 30فی صد نفع پرقسط وار سوداکرلیتاہے پھر تو سائل کا موبائل لینے والے کے ساتھ قسطوں میں سوداکرنا باطل ہے،اور اگر سائل دکان دار سے پہلے موبائل خریدتاہے اور اس کی قیمت بھی ادا کرلیتاہے،لیکن اس موبائل پرقبضہ کرنے سے پہلے وہ موبائل اس بندے کو قسط وار 30 فی صد منافع کے ساتھ بیچ دیتاہےتو سائل کااس قسم کا سودا کرنا بھی جائز نہیں ہے ۔
جائز صورت یہ ہے کہ سائل اولا موبائل خریدلے پھر اس پر قبضہ کرنے کےبعد آگے قسطوں پر فروخت کرے تو ایسا کرنا جائز ہوگا جس قیمت پر فروخت کرے گا وہی قیمت وصول کرنا جائز ہوگا۔
"المبسوط للسرخسي"میں ہے:
"والكلام في بيع المبيع قبل القبض في فصول؛ أحدها في الطعام، فإنه ليس لمشتري الطعام أن يبيعه قبل أن يقبضه لما روي أن النبي صلى الله عليه وسلم «نهى عن بيع الطعام قبل أن يقبض» وكذلك ما سوى الطعام من المنقولات لا يجوز بيعه قبل القبض عندنا."
(كتاب البيوع ، باب البيوع الفاسدة ،ج، 13 ، ص : 8 ،ط : دار المعرفة)
دررا لحکام شرح مجلہ الأحکام میں ہے:
" التقسيط تأجيل أداء الدين مفرقا إلى أوقات متعددة معينة."
(البیوع، الباب الثالث، الفصل الثاني، المادة :245، ج:1، ص:227، ط:دار الجيل)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وأما شرائط الصحة فعامة وخاصة فالعامة ....ومنها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة.......وأما الخاصة فمنها معلومية الأجل في البيع بثمن مؤجل."
(كتاب البيوع ، الباب الأول في تعريف البيع،ج : 3، ص : 3 ، ط : دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606101607
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن