بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مقروض کا اس حال میں انتقال کرجانا کہ ترکہ میں قرض ادا کرنے کی رقم نہ ہو


سوال

ہم نے ايك ٹھیكہ دار كو مكان بنانے كے تقريباً ساڑھے نو لاكھ روپے ديے،مکمل رقم قسطوں میں ادا کرنی تھی، ایک قسط دے چکے تھے اور تقریباً دس لاکھ روپے ادا کرنا باقی تھے، ٹھیکہ دار نے ابھی تک کام شروع نہیں کیا تھاکہ ان کا انتقال ہوگیا، ان کے انتقال کے بعد ہم ان کے لواحقین کے پاس اپنے پیسوں کا مطالبہ لے کر گئے تو انہوں نے اس رقم کا اقرار تو کرلیا لیکن کہا کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں، جب پیسے آئیں گےتو ادائیگی کردیں گے۔

ہمارے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟ ہمیں پیسے بھی درکار ہیں اور وہ اقرار کرنے کے بعد یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ابھی پیسے نہیں ہیں، ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ 

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد  اگر مرحوم کے ذمہ لوگوں کا قرضہ ہو تو اس کے ترکہ میں سے تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد کُل ترکہ سے قرضہ ادا کیا جائے گا، اور ورثاء کے ذمہ یہ ادائیگی کرنا لازم ہے، اس کے بعد اگر ترکہ بچ جائے تو وہ ورثاء میں تقسیم ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں ساڑھے نو لاکھ روپے ورثاء کے ذمہ مرحوم کا قرضہ ہے، ورثاء کو چاہیے کہ مرحوم کا جو بھی ترکہ ہے اس میں سے یہ رقم ادا کریں،اگر نقد رقم نہیں ہے تو جو اسباب و سامان ہے اسے بیچ کر قرضہ ادا کرنے کی کوشش کریں لیکن اگر مرحوم کے پاس اتنا ترکہ نہیں کہ یہ قرضہ ادا کیاجاسکے، تو اگر ورثاء میں سے کوئی صاحبِ استطاعت ہے، اسے چاہیے کہ مرحوم کی آخرت کی فکر کو مدِ نظر رکھ کر اپنی طرف سے مرحوم کا قرضہ ادا کردے، ورنہ مرحوم کو انتہائی تکلیف اور مشقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

حدیث شریف میں ہے:

"وعن أبي موسى عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن أعظم الذنوب عند الله أن يلقاه بها عبد بعد الكبائر التي نهى الله عنها ‌أن ‌يموت ‌رجل ‌وعليه ‌دين ‌لا ‌يدع ‌له ‌قضاء. رواه أحمد وأبو داود."

(مشكاة المصابيح، کتاب البیوع، ‌‌باب الإفلاس والانظار، الفصل الثانی، ج:2، ص:882، ط: دار الفکر)

”حضرت ابو موسی نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کبیرہ گناہ کہ جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے، اللہ کے نزدیک ان کے بعد عظیم ترین گناہ کہ جس کا مرتکب ہو کر بندہ خدا سے ملے، یہ ہے کہ کوئی شخص اس حالت میں مرے کہ اس پر قرض کا بوجھ ہوا اور اس نے اپنے پیچھے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کا قرض ادا ہو جائے۔“ (مظاہرِ حق)

مذكورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ مقروض کا انتقال کرجانا جب کہ اس کے پاس مال نہ ہو، خطرہ سے خالی نہیں، لہذ امرحوم کے ساتھ سہولت و عافیت والا معاملہ کروانے کے لیے ورثاء کو چاہیے کہ یا تو خود ان کا قرضہ ادا کردیں یا کسی صاحبِ حیثیت کو تیار کرکے ان پر قرض کی ذمہ داری ڈال دیں، نیز اگر ممکن ہو تو سائل کو چاہیے کہ ساڑھے نو لاکھ میں سے کچھ رقم معاف کردے تاکہ قرض ادا کرنے والوں پر بھی سہولت رہے۔ 

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"وقوله: ( لا يدع له قضاء ) صفة لدين أي لا يترك لذلك الدين مالا يقضى به، وفيه التحذير عن كثرة التدين والتقصير في أدائه، قال المظهر:  فعل الكبائر عصيان الله - تعالى - وأخذ الدين ليس بعصيان بل الاقتراض والتزام الدين جائز، وإنما شدد رسول الله صلى الله عليه وسلم على من مات وعليه دين ولم يترك ما يقضي دينه كيلا تضيع حقوق الناس. قال الطيبي:  يريد أن نفس الدين ليس بمنهي عنه بل هو مندوب إليه، كما ورد في بعض الأحاديث، وإنما هو بسبب عارض من تضييع حقوق الناس بخلاف الكبائر فإنها منهية لذاتها."

(کتاب البیوع، ‌‌باب الإفلاس والانظار، ج:5، ص:1962، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها كالرهن والعبد الجاني) والمأذون المديون والمبيع المحبوس بالثمن والدار المستأجرة وإنما قدمت على التكفين لتعلقها بالمال قبل صيرورته تركة (بتجهيزه) يعم التكفين (من غير تقتير ولا تبذير)  ككفن السنة أو قدر ما كان يلبسه في حياته ولو هلك كفنه فلو قبل تفسخه كفن مرة بعد أخرى وكله من كل ماله (ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد) ويقدم دين الصحة على دين المرض إن جهل سببه وإلا فسيان كما بسطه السيد، (وأما دين الله تعالى فإن أوصى به وجب تنفيذه من ثلث الباقي وإلا لا ثم) تقدم (وصيته) ولو مطلقة على الصحيح خلافا لما اختاره في الاختيار (من ثلث ما بقي) بعد تجهيزه وديونه وإنما قدمت في الآية اهتماما لكونها مظنة التفريط (ثم) رابعا بل خامسا (يقسم الباقي) بعد ذلك (بين ورثته)."

(کتاب الفرائض، ج:6، ص:761، ط: دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144605101538

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں