ایک شخص سرکاری ملازمت کرنے کے ساتھ کچھ پرائیویٹ کام بھی کرتا ہے، جس کی کل ملا کے تقریباً پچپن ہزار روپے تنخواہ بنتی ہے، لیکن اس کے باوجود مہنگائی اور فیملی بڑی ہونے کی وجہ سے گھر کے اخراجات زیادہ ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے وقتاً فوقتاً کچھ اضافی ضروریات کی وجہ سے قرضہ لینا پڑتا ہے، جو قرضہ اب ڈھائی لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے، تو کیا اس صورت میں صرف اور صرف قرضہ اتارنے کی نیت سے زکوٰۃ کی رقم وصول کر سکتا ہے؟ جب کہ اس کے پاس گھر کے پلاٹ کے علاوہ مزید کوئی بھی ملکیت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ جو شخص مقروض اور زکوۃ کا مستحق ہو، اور وہ سید، ہاشمی، عباسی، علوی، جعفری بھی نہ ہو، تو اس کو زکوۃ دینا اور اس کے لیے ضرورت کے مطابق زکوۃ لینا جائز ہے۔ (یعنی قرض کی مقدار منہا کرنے کے بعداگر اس کے پاس ضرورت سے زائد اتنا مال اور سامان باقی نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو) تو اسے اس کے قرض کی ادائیگی کے لیے زکوۃ دینا نہ صرف جائز، بلکہ مستحسن ہے، لہذا مستحقِ زکوۃ مقروض شخص زکوۃ کی رقم لے کر اپناقرض اداکرسکتاہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(ومنها الغارم) وهو من لزمه دين ولا يملك نصابا فاضلا عن دينه أو كان له مال على الناس لا يمكنه أخذه كذا في التبيين والدفع إلى من عليه الدين أولى من الدفع إلى الفقير."
(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج: 1، ص: 188، ط: رشيدية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ومديون لا يملك نصابا فاضلا عن دينه) وفي الظهيرية: الدفع للمديون أولى منه للفقير.
وفي الرد: (قوله: لا يملك نصابا) قيد به؛ لأن الفقر شرط في الأصناف كلها... ونقل ط عن الحموي أنه يشترط أن لا يكون هاشميا. (قوله: أولى منه للفقير) أي أولى من الدفع للفقير الغير المديون لزيادة احتياجه."
(كتاب الزكاة، باب المصرف، ج: 2، ص: 343، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144507100273
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن