اگر کسی پر پہلے سے مال تجارت یاکاشت کاری کی وجہ سےمستقل زکاۃ واجب ہو ئی،پھراس پر اچھا خاصا قرض آگیا،تو کیا زکاۃ ادا کرنااس کے ذمے ہے یا قرضوں کی وجہ سے زکاۃ کم ہوجائےگی یا ساقط ہوجائے گی؟
صورتِ مسئولہ میں زکاۃ واجب ہونے کے بعد اگر زکاۃ ادا نہ کرے پھر مال کم ہوجائے یا مقروض ہوجانے سے وہ فرض ساقط نہیں ہوتابلکہ فرض اپنے ذمہ رہتاہے،لہٰذا جیسے ہی رقم آئے ادا کرنا لازم ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(و سببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول؛ لحولانه عليه (تام).....(فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة وخراج أو للعبد، ولو كفالة أو مؤجلا..... وهذا إذا كان الدين في ذمته قبل وجوب الزكاة، فلو لحقه بعده لم تسقط الزكاة لأنها ثبتت في ذمته فلا يسقطها ما لحق من الدين بعد ثبوتها جوهرة."
(کتاب الزکوٰۃ، ج:2، ص:259، ط:سعید)
احسن الفتاویٰ میں ہے:
سوال:جس کے پاس نصاب زکوٰۃ ہے مگر اسی قدر یااسے زائد اس پر قرض بھی ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں؟
الجواب ومنه الصدق والصواب:
اگر قرض سے فارغ مال حدِ نصاب تک نہیں پہنچتا تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں،البتہ اگر وجوب زکوٰۃ کے بعد قرض ہوگیاتواس سے زکوٰۃ ساقط نہ ہوگی۔
(زیرعنوان:قرض سے فارغ نصاب نہ ہو تو زکوٰۃ فرض نہیں، کتاب الزکاۃ، ج:4، ص:260، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506102376
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن