میرے ایک دوست کو پانچ ہزار کی ضرورت تھی ، اس نے مجھ سے مانگے ، میرے پاس 4500 روپے تھے ، لیکن اس رقم سے میں نے کچھ ضروری سامان لینا تھا، میں نے اسے بتادیا کہ میرے پاس پیسے تو ہیں مگر مجھے ان سے کچھ ضروری سامان لینا ہے، اس نے مجھ سے کہا آپ وہ پیسے مجھے دے دو، میں آپ کے لیے وہ سامان ادھار پر لیتا ہوں ، اور بعد میں جب میرے پاس پیسے آجائیں گے میں ادا کردوں گا، میں نےاسے پیسے دے دیے، اس نے وہ سامان ادھار پر لے کر مجھے دے دیا، اب سوال یہ ہے کہ اس طرح کرنا شرعاً کیسا ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص جو کہ ادھار طلب کررہا تھا، اس کو سائل نے اپنی رقم دے کر بعد ازاں اسے اپنی جانب سے اپنے لیے ادھار سامان خریدنے کی اجازت دی تو مذکورہ شخص سائل کی جانب سے ادھار خریدنے کا وکیل کہلائے گا، اور مذکورہ شخص کا سائل کے لیے ادھار سامان خریدنا اور سائل کو دینا جائز ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"(وأما) التوكيل بالشراء فالجواب عنه من وجهين " أحدهما " أن جوازه ثبت على خلاف القياس، لكونه أمرا بالتصرف في مال غيره، وذكر الثمن فيه تبع، ألا ترى أنه يصح بدون ذكر الثمن، إلا أنه جوز باعتبار الحاجة إذ كل أحد لا يتهيأ له أن يشتري بنفسه فيحتاج إلى من يوكل به غيره، والحاجة إلى التوكيل بالشراء بثمن جرى التعارف بشراء مثله بمثله فينصرف الأمر بمطلق الشراء إليه ألبتة.الثاني المشتري متهم بهذا الاحتمال: أنه يشتري لنفسه فلما تبين فيه الغبن أظهر الشراء للموكل، ومثل هذه التهمة في البيع منعدمة فهو الفرق."
(کتاب الوکالۃ،فصل فی بیان حکم التوکیل، ج:6،ص؛27،ط:دارالکتب العلمیہ)
البحرالرائق میں ہے :
"لأن الوكيل بالشراء لا يتقيد شراؤه بالنقد فله أن يشتري بالنسيئة ويكون التأجيل حقا للوكيل والموكل."
(ج:7،ص:169،ط:دارالکتاب الاسلامی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101794
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن