بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کا نام دار السلام رکھنا / زکات کی رقم تملیک کرکے مدرسہ کے اخراجات پورے کرنا


سوال

1۔بندہ ایک مدرسہ کا خادم ہے،بندہ نے آٹھ سال قبل ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی اور مدرسہ کا نام دار السلام رکھا ہے ،حالانکہ اللہ تعالی نے جنت کانام دار السلام رکھا ہے کیا اس نام رکھنے میں کوئی قباحت ہے؟

2۔مدرسۂ مذکورہ میں ماہانہ تعاون حسبِ استعداد وصول کیا جاتا ہے،مدرسہ کے اخراجات اس کے باوجود پورے نہیں ہوتے اورہرماہ 50 فیصد کی کمی رہتی ہے ،کیا زکات کی رقم بصورت تملیک مدرسہ کے اخراجات میں استعمال کرسکتے ہیں؟

جواب

1۔قرآن کریم میں جنت کا نام دار السلام  رکھا گیا ہے ،اس کی  مفسرین کرام نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں،جن میں سے ایک توجیہ یہ ہے کہ السلام ’’سلامتی‘‘ کے معنی میں آتاہے ،تو ’’دار السلام ‘‘کا مطلب ہے ’’سلامتی والا گھر‘‘،یعنی جنت ایسا گھر ہے کہ وہاں ہمیشہ کی  سلامتی ہے ،وہاں جو آدمی داخل ہوجاتاہے وہ ہر قسم کے شرور فتن سے  اوراللہ کے عذاب سےمحفوظ ہوجاتا ہے۔

حقیقی دار السلام تو بیشک جنت ہی ہے ،البتہ لغوی معنی کے اعتبار سے دنیا میں کسی مدرسہ  کانام اگر دار السلام رکھ لیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے،یہ ایک قسم کی نیک فالی  ہوگی  کہ اللہ پاک اس مدرسہ میں آنے والے کو شرور و فتن  سے محفوظ و سلامت رکھے۔

وفي التفسير المظهري :

"دارُ ‌السَّلامِ يعنى الجنة سميت بها لإنها ‌دار ‌السّلام من المكاره أو دار تحيتهم فيها سلام أو المعنى دار الله أضاف إلى نفسه تعظيما."

(3/ 287،الناشر: المكتبة الرشيدية - الباكستان)

2۔کسی شدید ضرورت کے بغیر حیلۂ تملیک کرنا مکروہ ہے،  اور اگر شدید ضرورت ہو تو تملیک کی حقیقت اورشرائط ملحوظ رکھتے ہوئے تملیک کا حیلہ کرنے کی گنجائش ہوگی، اس کا طریقہ یہ ہے کہ زکات کی رقم کسی غریب کو مالک بنا کر دے دیں،جب وہ زکات پر قبضہ کرلے پھر اسے ترغیب دی جائے کہ  فلاں مصرف میں ضرورت ہے، اس کے بعد اگر وہ اپنی خوشی سے دے دیتا ہے، تو  اس رقم کا استعمال جائز ہوگا۔

ملاحظہ:جامعہ کے فتاوٰی بینات  کے جلد 3 کتاب الزکاۃ میں اس سے متعلق  تفصیلی فتوٰی موجود ہے ،اس کا مطالعہ مفید رہے گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وحيلة التكفين بها التصدق على فقير ثم هو يكفن فيكون الثواب لهما وكذا في تعمير المسجد...وأخرج السيوطي في الجامع الصغير لو مرت الصدقة على يدي مائة لكان لهم من الأجر مثل أجر المبتدئ من غير أن ينقص من أجره شيء."

(ص:271،ج:2،کتاب الزکوۃ،ط:سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"إذا أراد أن يكفن ميتا عن زكاة ماله لا يجوز والحيلة فيه أن يتصدق بها على فقير من أهل الميت ، ثم هو يكفن به الميت فيكون له ثواب الصدقة ولأهل الميت ثواب التكفين، وكذلك في جميع أبواب البر التي لا يقع بها التمليك كعمارة المساجد وبناء القناطر والرباطات لا يجوز صرف الزكاة إلى هذه الوجوه. والحيلة أن يتصدق بمقدار زكاته على فقير، ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه فيكون للمتصدق ثواب الصدقة ولذلك الفقير ثواب بناء المسجد والقنطرة."

(ص:392،ج:6،کتاب الحیل،الفصل الثالث في مسائل الزكاة،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605100939

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں