ہمارے کچھ رشتے دار ماربل کی پکی قبریں بناتے ہیں، پھر اس کی اقسام ہیں جسے عرف میں فرسٹ اسٹیپ، سیکنڈ اسٹیپ، تھرڈ اسٹیپ کہا جاتا ہے، یعنی پہلی منزل دوسری منزل اور تیسری منزل وغیرہ، پوچھنا یہ ہے کہ:
(1) قبروں کے چاروں طرف کو پکا کرنا کیسا ہے جبکہ درمیان سے وہ کچی ہوں؟
(2) ماربل لگانے کی وجہ سے قبر کی سطح زمین سے بہت اونچی ہوجاتی ہے، تو کیا یہ جائز ہے؟
(3) قبر کی سطح زمین سے کتنی اونچی ہونی چاہیے؟
(1) قبر (یعنی جتنی جگہ میں میت ہے ) پکی کرنے کے حوالے سے احادیث میں ممانعت آئی ہے، جس کی وجہ سےماربل یا دیگر پتھروں سے قبر پکی کرنا جائز نہیں اور قبروں پر ماربل لگانے کا کام بھی شرعاً جائز نہیں ہے تاہم قبر کو محفوظ بنانے کے لیے قبر کے ارد گرد ایسی رکاوٹ لگادی جائے جس کے ذریعہ کسی جانور وغیرہ کو قبر تک رسائی ممکن نہ ہو، مثلاً قبر کے ارد گرد کانٹے رکھ دیے جائیں یا قبر کے اطراف میں اینٹوں کی باڑ لگانا اس طرح کہ میت کے جسم کی سیدھ میں نیچے سے اوپر تک قبر کچی رہے، یہ جائز اور درست ہے، یعنی میت کا جسم چاروں جانب سے مٹی کے اندر رہے، اطراف کی جگہ اینٹیں لگادی جائیں تو حرج نہیں،تاکہ قبر محفوظ رہے، نیز ماربل سے اطراف کو پکا نہ کیا جائے۔
(2) قبر کی سطح ایک بالشت سے زیادہ اونچی کرنا مکروہ ہے۔
(3) قبر پر مٹی ڈال کر اسے اونٹ کے کوہان کی مانند ایک بالشت اونچا بنایاجائے، یہی طریقہ افضل ہے۔ قبر کو اس سے زیادہ اونچا بنانا مکروہ ہے۔
سنن ترمذی میں ہے:
" 1052 - حدثنا عبد الرحمن بن الأسود أبو عمرو البصري قال: حدثنا محمد بن ربيعة، عن ابن جريج، عن أبي الزبير، عن جابر قال: «نهى النبي صلى الله عليه وسلم أن تجصص القبور، وأن يكتب عليها، وأن يبنى عليها، وأن توطأ»: هذا حديث حسن صحيح."
(3/ 359، أبواب الجنائز، باب ما جاء في كراهية تجصيص القبور، والكتابة عليها)
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح (ص611):
" قوله: "ولا يجصص" به قالت الثلاثة لقول جابر نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن تجصيص القبور وأن يكتب عليها وأن يبنى عليها رواه مسلم وأبو د اود والترمذي وصححه ۔۔۔ قوله: "ويكره البناء عليه" ظاهر إطلاقه الكراهة أنها تحريمية قال في غريب الخطابي نهى عن تقصيص القبور وتكليلها انتهى التقصيص التجصيص والتكليل بناء الكاسل وهي القباب والصوامع التي تبنى على القبر ۔۔۔ وقد اعتاد أهل مصر وضع الأحجار حفظا للقبور عن الإندارس والنبش ولا بأس به."
( كتاب الصلاة، باب أحكام الجنائز، فصل في حملها و دفنها، ط: دار الكتب العلمية)
الخانیة علی هامش الهندیة: (1/194)
"ویکره الآجر في اللحد إذا کان یلي المیت، أما فیما وراء ذلك لا بأس به".
(باب في غسل الميت و ما يتعلق به، ط: رشيدية)
الفتاوى الهندية (1/ 166):
" ويسنم القبر قدر الشبر ولا يربع ولا يجصص ولا بأس برش الماء عليه ويكره أن يبنى على القبر أو يقعد أو ينام عليه أو يوطأ عليه أو تقضى حاجة الإنسان من بول أو غائط أو يعلم بعلامة من كتابة ونحوه، كذا في التبيين. وإذا خربت القبور فلا بأس بتطيينها، كذا في التتارخانية، وهو الأصح وعليه الفتوى، كذا في جواهر الأخلاطي."
(كتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز،الفصل السادس في القبر والدفن والنقل من مكان إلى آخر، ط: رشيدية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144308100833
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن