شریعت میں ریشم کا لباس مسلم مردوں پر کیوں حرام ہوا؟
حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دستِ مبارک میں ریشم اور دوسرے میں سونا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں اور میری امت کی عورتوں کے لیے حلال ہیں ۔لہذا صورت مسئولہ میں خالص ریشمی لباس کا استعمال مردوں کے لیے جائز نہیں اور عورتوں کے لیے جائز ہے۔البتہ اس حرمت کی وجہ کے لیے مذکورہ حدیث شریف کافی ہے جس میں مسلمان مردوں کے لیے ممانعت آئی ہے۔البتہ اس کی حکمت کے بارے میں علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ریشم نرم، نازک اور زینتی لباس ہے، جو عورتوں کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔ مردوں کے لیے یہ نرمی، زیبائش اور نزاکت غیر موزوں اور فطرتِ مردانگی کے خلاف ہے۔نیز ریشم پہننے سے عام طور پر تفاخر، ریا، اور غرور پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ نبی ﷺ نے تواضع، سادگی، اور انکساری کو پسند فرمایا ہے۔ نیز اسلام مردوں کو طاقتور، باحیا، باوقار اور مجاہد بنانا چاہتا ہے، نہ کہ ناز و نعم میں ڈوبے ہوئے۔لہذا ریشم مسلمان مردوں پر حرام قرر دیا گیا ہے۔مصنف ابن أبي شيبة میں ہے:
"حدثنا أبو بكر، قال: حدثنا عفان قال: أخبرنا حماد بن سلمة، قال: أخبرنا بن سيرين عن أبي مجلز عن حفصة أن عطارد بن حاجب جاء بثوب ديباج كساه إياه كسرى، فقال عمر: ألا أشتريه لك يا رسول الله! قال: إنما يلبسه من لا خلاق له".
(کتاب اللباس، في لبس الحرير وكراهية لبسه، ج: ۵، ۱۵۳، ط: مكتبة الرشد - الرياض)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"(وأما) الذي ثبت حرمته في حق الرجال دون النساء فثلاثة أنواع ، منها لبس الحرير المصمت من الديباج والقز لما روي «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج وبإحدى يديه حرير وبالأخرى ذهب، فقال: هذان حرامان على ذكور أمتي حل لإناثها». وروي «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أعطى سيدنا عمر - رضي الله تعالى عنه - حلة فقال: يا رسول الله! كسوتني حلة وقد قلت في حلة عطارد إنما يلبسه من لا خلاق له في الآخرة؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني لم أكسكها لتلبسها، وفي رواية: إنما أعطيتك لتكسو بعض نسائك»."
(كتاب الاستحسان، ج: ۵، صفحہ: ۱۳۰، ط: دار الكتب العلمية)
زاد المعاد في هدي خير العباد میں ہے:
"ومنهم من يجيب عنه بأنه خلق في الأصل للنساء كالحلية بالذهب، فحرم على الرجال لما فيه من مفسدة تشبه الرجال بالنساء، ومنهم من قال: حرم لما يورثه من الفخر والخيلاء والعجب. ومنهم من قال حرم لما يورثه بملامسته للبدن من الأنوثة والتخنث وضد الشهامة والرجولة، فإن لبسه يكسب القلب صفة من صفات الإناث؛ ولهذا لا تكاد تجد من يلبسه في الأكثر إلا وعلى شمائله من التخنث والتأنث والرخاوة ما لا يخفى، حتى لو كان من أشهم الناس وأكثرهم فحولية ورجولية، فلا بد أن ينقصه لبس الحرير منها، وإن لم يذهبها، ومن غلظت طباعه وكثفت عن فهم هذا فليسلم للشارع الحكيم."
(المجلد الرابع، ص: 80 طبع دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101331
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن