بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1446ھ 26 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مرحومہ کے ترکہ میں ہبہ کا دعوی کرنا


سوال

ایک عورت کے انتقال کے بعد اس کی بھانجی(جس نے مرحومہ کی زندگی میں خدمت کی تھی)یہ دعوی کرتی ہے کہ مرحومہ  نےمجھے زندگی میں اپنا مکان اور دو دکانیں گفٹ(ہبہ)کردی تھیں،اور یہ کہا تھا کہ میں نے اپنی بھانجی کو اپنی دو دکانیں اورمکان اس کی خدمت کے صلہ میں گفٹ کردیا ہے،میرا اس سے کوئی تعلق نہیں،جب کہ مرحومہ کے ورثاء اس بات کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے علم کے مطابق مرحومہ نے کوئی گفٹ نہیں کیا،اور کاغذات وغیرہ سب مرحومہ کے نام ہی ہیں،مرحومہ کے شوہر کا انتقال پہلے ہوچکا ہے،اور اولاد کوئی نہیں،ورثاء میں بہن بھائی ہیں،اب سوال یہ ہے کہ  مذکورہ مکان اور دکانیں کس کی ملکیت شمار ہوں گی؟

نوٹ:(1)مرحومہ وفات تک اس مکان میں رہائش پذیر تھیں،اور دکانیں مرحومہ نے کرایہ پر دی ہوئی تھیں اور وفات تک مرحومہ خود اس کا کرایہ وصول کرتی تھیں۔

(2)مرحومہ کی بھانجی کا دعوی یہ ہے کہ مرحومہ زندگی میں ہبہ کرچکی تھیں  ،یہ دعوی نہیں کررہی کہ وفات کے بعد دینے کی وصیت  کی تھی۔ 

جواب

واضح رہےکہ انسان کا اپنی زندگی میں اپنی جائے داد میں سے کسی کو کچھ دینا شرعاہبہ(گفٹ)کہلاتا ہے،ہبہ کے مکمل اور صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ واہب(گفٹ کرنے والا)موہوبہ چیز(جوچیز گفٹ میں دی جارہی ہے)کو اپنے قبضہ و تصرف سے نکال کر موہوب لہ(جس کو گفٹ کر رہا ہے)کے حوالہ کرکے اس کےقبضہ و تصرف میں دے دے ،اور اپنا تصرف بالکل ختم کردے،اور اگر واہب نےاپنی چیز  موہوب لہ کوزبانی طور پرہبہ کردی، لیکن اپنا قبضہ و تصرف ختم نہیں کیا بلکہ اس موہوبہ چیز کو اپنے قبضہ و تصرف میں ہی رکھا شرعا ایساہبہ درست نہیں ہوتا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً بھی  مرحومہ نے اپنا مکان اور دو دکانیں زبانی طوراپنی بھانجی کو ہبہ کردی تھیں،لیکن  مذکورہ مکان سے اپنا قبضہ وتصرف ختم کرکے اپنی بھانجی کو حوالہ نہیں کیا تھااوراسی طرح دکانیں بھی بھانجی کے قبضہ و تصرف میں نہیں دی تھیں ، بل کہ مرحومہ اپنی وفات تک اس مکان میں خود ہی رہائش پذیر رہیں،اسی طرح   دکانوں کا کرایہ بھی خود وصول کرتی رہیں تو شرعاً مرحومہ کا یہ ہبہ(گفٹ کرنا) درست نہیں ہوا تھا،مذکورہ مکان اوردکانیں مرحومہ کی ملکیت میں  ہی رہیں ،بعد ازاں  مرحومہ کی وفات کے بعد   وہ مکان اور دو دکانیں مرحومہ کا ترکہ بن گیاہےاور اس میں ورثاء کا حق متعلق ہوگیاہے،اور وہ تمام شرعی ورثاء میں مشترک ہے،لہذا اگر مرحومہ کی بھانجی کایہ دعویٰ شرعی گواہی سے ثابت بھی ہوجائے کہ مرحومہ نے مذکورہ مکان اور دکانیں اپنی بھانجی کوزبانی  ہبہ کردی تھیں ،لیکن قبضہ و تصرف کے ساتھ حوالہ نہیں کیا تھا،تو بھی ہبہ کی شرائط نہ ہونے کی وجہ سےیہ ہبہ مکمل و درست نہیں ہواتھا،لہذااب  مرحومہ کی بھانجی کا مذکورہ مکان اور دکان میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط. والقبض الذي يتعلق به تمام الهبة وثبوت حكمها القبض بإذن المالك."

(کتاب الھبۃ، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ج:4، ص:377، ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها."

(کتاب الھبۃ، ج:5، ص:690، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602100260

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں