بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کا اپنی زندگی میں ہی اپنا رہائشی مکان ایک بیٹے کے نام کرنے کا حکم، میراث: ایک بیوہ، دو بیٹوں اور چار بیٹیوں کے درمیان ترکے کی تقسیم کا طریقہ، پوتے اور پوتیوں کا حصہ


سوال

میرے والد نے اپنا مکان میرے بڑے بھائی کے نام کیا تھا،  اور تاحیات میرے والد اسی مکان میں رہے، اب والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔

ورثاءمیں بیوہ ،دو بیٹے (یعنی ایک میں اور ایک میرا بڑا بھائی ) اور چار بیٹیاں ہیں، میرے بڑے بھائی کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔پوچھنا یہ ہے کہ ذکر کردہ افراد میں سے ہر ایک کا مذکورہ مکان کیا حصہ بنتا ہے ؟ اور بھتیجوں، بھتیجی کا مذکورہ مکان میں حصہ بنتا ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کسی بھی چیز کو ہبہ (گفٹ) کرنے کی صورت میں ہبہ (گفٹ) کے مکمل ہونے اور ملکیت کا فائدہ دینے کے لیے ضروری ہے  کہ 'واہِب' (ہبہ کرنے والا) '  موہوب لہ' (جس کو ہبہ کررہا ہے) کو 'موہوبہ چیز' (جس چیز کا ہبہ کیا جارہاہے) پر  مکمل  قبضہ اور تصرف کا اختیار بھی دے دے، اور ہبہ کے وقت موہوبہ چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کردے، صرف زبانی طور پر ہبہ کرنے یا نام کردینے سے  شرعاً ہبہ تامّ (مکمل) نہیں ہوتا، نیز ہر چیز کا قبضہ اسی چیز کے حساب سے ہوتا ہے،   مکان کے قبضہ کے تام ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ  واہب (مالک) اپنا سامان اس میں سے نکال دے اور خود بھی کچھ  وقت کے لیے اس میں سے نکل جائے، پھر اگر خود بھی مکان میں رہنا چاہتا ہے تو موہوب لہ کی اجازت سے رہ سکتاہے،   اس طرح موہوبہ چیز موہوب لہ کے لیے گفٹ ہوجائے گی ، اور واہب کی ملکیت ختم ہوجائے گی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  اگرچہ آپ کے مرحوم والد نےاپنا رہائشی گھر ہبہ (گفٹ) کی نیت سے اپنے بڑے بیٹے کے نام کیا ہو، تب بھی چوں کہ مرحوم خود بھی انتقال ہونے تک اسی مکان میں  رہائش پذیر رہے،  اس لیے اس مکان کا قبضہ بیٹۓ کو حاصل نہ ہونے کی وجہ سے یہ ہبہ (گفٹ) تامّ (مکمل) نہیں ہوا،  اور یہ مکان مرحوم کے انتقال تک مرحوم کی ہی ملکیت میں رہا، اس لیے مرحوم کے انتقال کے بعد یہ گھر مرحوم کا ترکہ شمار ہوگا، اور اس میں مرحوم کے تمام شرعی ورثاء (بیوہ، دو بیٹے اور چار بیٹیوں) کا  میراث کے شرعی ضابطے کے موافق حق و حصہ ہوگا۔ البتہ آپ کے بھائی کی اولاد (یعنی مرحوم کے پوتے، پوتیوں) کا مرحوم کے ترکے میں کوئی حق و حصہ نہیں ہے۔

آپ کے مرحوم والد کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے ترکہ  میں سے حقوقِ  متقدمہ  یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو، تو  اسے ادا کرنے کے بعد، اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو  تو اسے  باقی مال کے ایک تہائی حصے میں سے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل متروکہ  جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو64 حصوں میں تقسیم کر کے،  8 حصے مرحوم کی بیوہ کو،  14 حصے مرحوم کے دو بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو ، اور 7 حصے مرحوم کی چار بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو  دیے جائیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے: 

میت: 8/ 64

بیوہبیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
814147777

فیصد کے اعتبار سے 12.5 فیصد مرحوم کی بیوہ کو، 21.875 فیصد مرحوم کے دو بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو اور 10.9375 فیصد مرحوم کی چار بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو  دیے جائیں گے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

(كتاب الهبة، الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، 4 /378 ط: رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية."

(کتاب الھبة، 5/ 690، ط: سعید)

 عمدۃ القاری میں ہے:

"و قال زيد : ولد الأبناء بمنزلة الولد إذا لم يكن دونهم ولد ذكر ذكرهم كذكرهم وأنثاهم كأنثاهم يرثون كما يرثون ويحجبون كما يحجبون ولا يرث ولد الابن مع الابن."

(باب ميراث ابن الابن إذا لم يكن ابن، ج:23، ص:238، ط:داراحیاء التراث العربی) 

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وأما الاثنان من السبب فالزوج والزوجة ... وللزوجة الربع عند عدمهما والثمن مع أحدهما، والزوجات والواحدة يشتركن في الربع والثمن وعليه الإجماع، كذا في الاختيار شرح المختار." 

(كتاب الفرائض،الباب الثاني في ذوي الفروض،ج:6/ 450، ط: رشيدية)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الأنثيين، كذا في التبيين."

(كتاب الفرائض،الباب الثاني في ذوي الفروض،ج: 6/ 448، ط: رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

" ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل).

(قوله: ويقدم الأقرب فالأقرب إلخ) أي الأقرب جهة ثم الأقرب درجة ثم الأقوى قرابة فاعتبار الترجيح أولا بالجهة عند الاجتماع،... وبعد الترجيح بالجهة إذا تعدد أهل تلك الجهة اعتبر الترجيح بالقرابة، فيقدم الابن على ابنه."

(كتاب الفرائض، فصل في العصبات،6/ 774، ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے: 

"الثانية - بنت الابن فللواحدة النصف وللثنتين فصاعدا الثلثان فهن كالصلبيات عند عدم ولد الصلب، كذا في الاختيار شرح المختار فإن اجتمع أولاد الصلب وأولاد الابن فإن كان في أولاد الصلب ذكر فلا شيء لأولاد الابن ذكورا كانوا أو إناثا أو مختلطين."

(كتاب الفرائض،الباب الثاني في ذوي الفروض،6/ 448، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606100209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں