انتقال کے بعد قضا شدہ نمازوں کا فدیہ ادا کر نا ہو گا؟ کس نصاب سے ادا کرنا ہوگا؟
واضح رہے کہ نماز کا فدیہ زندگی میں دینا درست نہیں ہے، اور نمازیں اس فدیہ سے معاف نہیں ہوں گی، کیوں کہ نماز میں یہ وسعت ہے کہ اگر کھڑے ہوکر نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر پڑھے، اور اگر بیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کرپڑھے، اگر رکوع وسجود کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا تو اشارہ سے پڑھے، اور اگر کسی بھی طرح نہ پڑھ سکے تو صحت حاصل ہونے کے بعد اس کی قضا کرے، اگر اسی بیماری میں انتقال ہوجائے جب کہ وہ اشارے سے بھی نماز ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو اس کے ذمے قضا یا وصیت واجب نہیں ہے، اور اگر قضا کی قدرت حاصل ہوجائے، خواہ اشاروں سے یا بیٹھ کر، پھر بھی نہ پڑھ سکے تو اس پر لازم ہے کہ مرنے سے پہلے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کرجائے۔
اب اگر کسی شخص کے ذمہ قضا نمازیں باقی ہوں اور وہ اپنی زندگی میں اس کو ادا نہ کرسکے تو اگر انتقال سے پہلے وہ یہ وصیت کرگیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد میرے ترکہ میں سے ان نمازوں کا فدیہ ادا کردینا اور اس کے ترکہ میں مال بھی ہے تو ایسی صورت میں اس کے ورثاء پر مرحوم کے ایک تہائی ترکہ سے اس کی وصیت کو پورا کرنا ضروری ہوتاہے، اور ایک تہائی سے زائد میں وصیت نافذ کرنے کے لیے تمام ورثاء کی اجازت ضروری ہوگی، اور اگر مرحوم نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت نہیں کی تو ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، البتہ اگر کوئی عاقل بالغ وارث اپنے حصے یا مال سے مرحوم کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کرنا چاہے تو یہ درست ہے، اور یہ اس کے وارث کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا۔
نیز ہر نماز کا فدیہ صدقۃ الفطر کی مقدار کے برابر پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت ہے،اور وتر کی نماز کے ساتھ روزانہ کے چھ فدیہ ادا کرنے ہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى الكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله).
(قوله: وإنما يعطي من ثلث ماله) أي فلو زادت الوصية على الثلث لايلزم الولي إخراج الزائد إلا بإجازة الورثة". (ج؛2/ص؛72،73، باب قضاءالفوائت/ط؛سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع من ثلث ماله". (1 / 125، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت، ط؛ رشیدیه)
مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:
"وعليه الوصية بما قدر عليه وبقي بذمته فيخرج عنه وليه من ثلث ما ترك لصوم كل يوم ولصلاة كل وقت حتى الوتر نصف صاع من بر أو قيمته وإن لم يوص وتبرع عنه وليه جاز ولا يصح أن يصوم ولا أن يصلي عنه". (ص: 169، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، فصل فی اسقاط الصلاۃ والصوم، ط: المکتبۃ العصریہ) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109202838
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن