بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم رشتے داروں کی طرف سے قربانی کرنا


سوال

میں مرحومین کی طرف سے قربانی کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں  جیسے ہمارے والدین یا دیگر رشتے دار،کیا ہم ان مرحومین کی طرف سے قربانی کر سکتے ہیں؟میں نے ایک عالم سے فیس بک پر  سنا ہے  وہ کہہ رہے تھے کہ ہم مرحومین کی طرف سے قربانی نہیں کر سکتے؛  کیوں کہ آپ ﷺ نے اور آپ کے خلفاء راشدین نے اس طرح مرحومین کی طرف سے قربانی نہیں کی!

برائے مہربانی اس متعلق رہنمائی فرمادیں!

جواب

میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے اور اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے، روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دنبہ اپنی طرف سے قربانی کرتے تھے اور ایک  دنبہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے قربانی کرتے تھے، اور جب ان سے اس بابت سوال کیا گیا تو فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس کی وصیت فرمائی تھی، اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے پوری امت کی طرف سے جانور قربان کیا ہے، اور پوری امت میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو تاقیامت آئیں گے، اور وہ لوگ بھی جو اُس وقت حیات تھے، اور وہ بھی جو رسول اللہ ﷺ کے دور میں وفات پاچکے تھے؛ لہذا آج بھی اگر کوئی اپنے مرحوم رشتے دار یا کسی بھی مسلمان مرحوم کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے،اس کا ثواب مرحوم تک پہنچے گا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

" عن حنش قال: رأیت علیاً یضحي بکبشین، فقلت له: ماهذا؟ فقال: إن رسول الله صلی الله علیه وسلم أوصاني أن أضحي عنه، فأنا أضحي عنه۔ رواه أبوداود، وروي الترمذی نحوه".

ترجمہ: حضرت حنش کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے ذبح کرتے دیکھا تو میں نے پوچھا : یہ کیا ہے؟ (یعنی ایک آدمی کی طرف سے کیا ایک ہی قربانی کافی نہیں؟) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺنے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں، چناں چہ میں آپ ﷺ  کی طرف سے قربانی کرتاہوں۔

(باب في الأضحية، الفصل الثاني، ص:128، ط: هندية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200950

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں