بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحومہ کی امانت سے ان کا کفن دفن کرنے کا حکم


سوال

کچھ سال پہلے میری بہن نے میرے پاس 12000روپے رکھوائے کہ جب ضرورت ہو گی لے لوں گی۔اسی دوران وہ اللہ کو پیاری ہو گئی۔لیکن میرے بھائیوں نے کہا کہ میں یہ رقم اس کے کفن دفن پر خرچ کروں۔لہذا مجبورا مجھے خرچ کرنے پڑے۔اب میری رہنمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں۔اس کی ایک بیٹی ہے کیا رقم  اس کو دوں یا پھر جو میں نے کفن دفن پر خرچ کی ہے وہ درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  ۱۲۰۰۰ کی رقم جو مرحومہ نے سائل کے پاس رکھوائی تھی وہ مرحومہ کا ترکہ ہے  اوراگر مرحومہ کا شوہر حیات نہیں تھا تو  مرحومہ کے ورثاء کے ذمہ تھا کہ  کل ترکہ (جس میں یہ ۱۲۰۰۰ بھی داخل ہیں) سے سب سے پہلے مرحومہ کے تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کیے جائیں۔لہذا صورت مسئولہ میں اگر سائل مرحومہ کا وارث تھا او رمرحومہ کا شوہر بھی حیات نہیں تھا تو پھر سائل کا یہ ۱۲۰۰۰ کی رقم تجہیز و تکفین پر خرچ کرنا درست تھا اور جو رقم خرچ ہوگئی وہ مرحومہ کی بیٹی یا دیگر ورثاء کو دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں جو رقم بچ گئی وہ مرحومہ کے ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔

نوٹ: اگر سائل مرحومہ کا وارث نہیں تھا یا پھر مرحومہ کا شوہر حیات تھا تو پھر مکمل تفصیل بیان کرکے جواب دوبارہ معلوم کریں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"كفن الوارث الميت أو قضى دينه (من مال نفسه) فإنه يرجع ولا يكون متطوعا»

(قوله أو كفن الوارث الميت) كذا في الخانية أيضا، وصرح فيها بأنه يرجع على التركة، قلت: وهذا لو كفن المثل كما مر. [تنبيه]

أو مات ولا شيء له ووجب كفنه على ورثته فكفنه الحاضر من مال نفسه ليرجع على الغائب منهم بحصته ليس له الرجوع لو أنفق بلا إذن القاضي حاوي الزاهدي.

قال الرملي في حاشية الفصولين: ليستفاد منه أنه لو لم يجب عليهم كتكفين الزوجة إذا صرفه من ماله غير الزوج بلا إذنه أو إذن القاضي فهو متبرع كالأجنبي فيستثنى تكفينها، بلا إذن مطلقا بناء على المفتى به من أنه على زوجها ولو غنية." 

(کتاب الوصایا، باب الوصی، ج نمبر  ۶، ص نمبر ۷۱۸، ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"فإن مات الطالب صار الدين للورثة فإن قضاه الورثة فقد برئ من الدين وعليه وزر مماطلته وجحوده وإن لم يقض فالأجر للطالب دون ورثته كذا في الحاوي للفتاوى."

(کتاب الکراہیۃ، باب سابع و عشرون، ج نمبر ۵، ص نمبر ۳۶۶، دار الفکر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100929

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں