بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مرنے کے بعد فوت شدہ نمازوں کا حکم


سوال

 ایک بالغ لڑکا چار سال سے بیمار تھا، بیماری کی وجہ سے وہ چل پھر بھی نہیں سکتا تھا، کوئی بھی کام وہ خود نہیں کر سکتا تھا، اب وہ فوت ہو گیا ہے اور چار سال کی نمازیں اُس کے ذمہ باقی ہیں، جو اس نے  نہیں پڑھی ہے، تو اب اس  کی نمازوں کا کیا ہو گا ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کے ذمہ لازم تھا کہ وہ بیٹھ کر رکوع  سجدے سے نماز پڑھتا، اگر رکوع  سجدے سے نماز پڑھنا ممکن نہ  تھاتو رکوع اور سجدے کے اشارے سے نماز پڑھتا، اگر بیٹھ کر نماز پڑھنا ممکن نہ تھا  تو لیٹ کر اشارے سے نماز پڑھتا، اگر اس نے اس کے باوجود نماز یں نہیں پڑھیں تو اس کے ذمہ ان نمازوں کی قضا لازم تھی، اگر اس نے وہ نمازیں نہیں پڑھیں تو اس کے ذمہ ان نمازوں کے فدیہ کی ادائیگی کی وصیت کرنا ضروری تھا۔

اگر مرحوم نے  اپنی فوت شدہ نمازوں کے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہے تواس کے ورثاء پر اس کےمال کے ایک تہائی حصہ میں سے فدیہ ادا کرنا لازم ہے ،اگر ان نمازوں کے فدیہ کی رقم ایک تہائی ترکہ سے زائد ہو تو زائد رقم تمام ورثاء کی اجازت سے اداکی جاسکتی ہے، بشرط یہ  کہ سب ورثاء عاقل بالغ ہوں اور اگر  سب ورثاء عاقل بالغ نہ ہوں یا وہ اجازت نہ دیں تو ایسی صورت میں تہائی سے زائد رقم میں وصیت پر عمل کرنا لازم نہیں ہے، البتہ اگر کوئی وارث اپنی طرف سے وہ زائد رقم بھی ادا کردے تو  یہ اس کی طرف احسان ہوگا۔

اور اگر مرحوم نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت نہیں کی تو ورثاء پر ان نمازوں کا فدیہ اداکرنا لازم نہیں ہے ،البتہ اگر تمام ورثاء عاقل ، بالغ ہوں اور وہ سب اپنی خوشی ورضامندی سے مرحوم کے ترکہ سے فدیہ ادا کردیں  یا کوئی  وارث اپنے مال سے  ادا کردے تو یہ مرحوم کے ساتھ احسان اورامورِ آخرت میں معاونت کا معاملہ ہوگا۔ 

ایک نماز کافدیہ پونے دو کلو گندم یا اُس کی قیمت ہے، اور فدیہ جس طرح فرض نمازوں کا ادا کرنا لازم ہے، اسی طرح وتر کی نماز کافدیہ ادا کرنابھی لازم ہے، یعنی فی دن چھ نمازوں کا فدیہ ادا کرنا لازم ہے۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله). قال ابن عابدين: (قوله يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة، فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك؛ لأنها عبادة، فلا بد فيها من الاختيار. (قوله وإنما يعطي من ثلث ماله) أي فلو زادت الوصية على الثلث لا يلزم الولي إخراج الزائد إلا بإجازة الورثة."

(كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، 72،73/2، ط: سعيد)

وفیہ ایضًا:

"(وإن) لم يوص و (تبرع وليه به جاز) إن شاء الله ويكون الثواب للولي اختيار. قال ابن عابدين: (قوله إن شاء الله) قیل: المشيئة لا ترجع للجواز بل للقبول كسائر العبادات وليس كذلك، فقد جزم محمد - رحمه الله - في فدية الشيخ الكبير وعلق بالمشيئة فيمن ألحق به كمن أفطر بعذر أو غيره حتى صار فانيا، وكذا من مات وعليه قضاء رمضان وقد أفطر بعذر إلا أنه فرط في القضاء وإنما علق لأن النص لم يرد بهذا كما قاله الأتقاني، وكذا علق في فدية الصلاة لذلك، قال في الفتح والصلاة كالصوم باستحسان المشايخ."

(كتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، 424،425/2، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406102120

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں