بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مرض الموت میں کل مال صدقہ کرنے کی وصیت کرنا


سوال

میری سالی کا انتقال ہوا، ورثاء میں شوہر ،دو بیٹیاں  ہیں ، والدین کا انتقال پہلے ہوچکا ہے ، چار بھائی ، ایک بہن ہیں ، مرحومہ کے پاس تین تولہ سونا ہے ،جس کی مالیت ساڑھے پانچ لاکھ بتارہے ہیں، انتقال سے پہلے ہسپتال میں ایڈمٹ تھی ، اس وقت کہا کہ یہ کسی مسجد میں دے دینا، بیٹیوں اور میاں کو نہیں دینا۔

اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟ کیا مسجد میں یہ رقم لگاسکتے ہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کی  مرحومہ سالی کے انتقال کے بعد اگر ان کا کل ترکہ یہی سونا ہے جس کا سوال میں ذکر کیا گیا ہے ، تو مرحومہ  کا اپنے اس سونے یا اس کی قیمت کو صدقہ کرنے کا کہنا یہ  وصیت میں شامل ہے اور وصیت کل مال کے ایک تہائی  حصہ میں نافذ ہوگی اور بقیہ مال ان کے ورثاء میں تقسیم ہوگا،لہذا مرحومہ کی وصیت شرعاً نافذ ہوگی ، اور کل مال کے بجائے  اس کا تیسرا حصہ مسجد میں صرف کیا جائے گا، بقیہ مال ورثاء یعنی مرحومہ کے شوہر ، بیٹیوں اور ان کے بھائیوں اور بہن میں تقسیم ہوگا۔

البتہ اگر مرحومہ کی بیٹیاں عاقلہ بالغہ ہوں اور تمام ورثاء باہمی رضامندی سے کل ترکہ کو مسجد میں لگانا چاہیں تو اس کی اجازت ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال في الأصل: ولا تجوز ‌هبة ‌المريض ولا صدقته إلا مقبوضةً فإذا قبضت جازت من الثلث وإذا مات الواهب قبل التسليم بطلت، يجب أن يعلم بأن ‌هبة ‌المريض هبة عقداً وليست بوصية واعتبارها من الثلث ما كانت؛ لأنهّا وصية معنى؛ لأنّ حق الورثة يتعلّق بمال المريض وقد تبرّع بالهبة فيلزم تبرعه بقدر ما جعل الشرع له وهو الثلث، وإذا كان هذا التصرف هبة عقداً شرط له سائرشرائط الهبة، ومن جملة شرائطها قبض الموهوب له قبل موت الواهب، كذا في المحيط."

(كتاب الہبہ ، الباب العاشر في ہبۃ المريض، ج:4،ص:400،ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144603102913

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں