ہم دونوں میاں بیوی کی آپس میں کوئی لڑائی نہیں تھی، میری بیوی تقریبا چار ماہ کی حاملہ تھی، اور ایک سال کا بیٹا بھی تھا، اس سال یعنی 12 جنوری کو میری بیوی اپنے گھر گئی میرے بیٹے کو ساتھ لے کر تو میرے سسرال والوں نے ان کو روک دیا، اور کچھ شکایات کیں اور بیوی کو جانے نہیں دیا اور یہ کہا کہ ہم اپنی بیٹی کو نہیں بھیج رہے، اور میری بیوی سے میرا رابطہ بند کروا دیا، 12 مئی کو اللہ نے ہمیں بیٹی سے نوازا ،13 مئی کو ہمیں خبر دی گئی تو میں نے اپنی بیوی کو فون کیا تو میری ساس نے فون اٹھایا اور میری بیوی سے بات کروائی،اور اس کے بعد پھر کوئی رابطہ نہیں کروایا۔
”11 جون کو میں نے اپنی بیوی کے نمبر پر میسج کر کے لکھاکہ اگر نہیں آنا تو اپنا سامان اٹھا لو“، یہ سن کر اسی دن ان کے والدین میرے گھر آئے اور میں خود اور میرے گھر والے بیٹے اور ہماری رضامندی ہوئی، یعنی ہم نے آپس میں مصالحت کی، پھر دو دن بعد ان کی والدہ نے فون کیا کہ ہم اپنی بیٹی کو نہیں بھیج رہے ،کیوں کہ ابھی تک ہم مطمئن نہیں ۔
پھر 15 جون کو میں نے اپنے سسر کے نمبر پر میسج میں لکھ دیا کہ”میری طرف سے آپ کی بیٹی کو طلاق ہے “یہ میں نے تین مرتبہ لکھا، لیکن یہ میسج میں نے ڈرانے کی نیت سے کیا تھا، طلاق کی نیت سے نہیں، اور یہ بھی کہا کہ اپنی بیٹی کو اپنے پاس رکھو وغیرہ اس پورے دورے میں میں اپنی بیوی اور اس کے والدین سے معافی مانگتا رہا ،اگر میری جو غلطیاں ہیں ان کو معاف کر دیں اور میری بیوی اور بچوں کو بھیج دیں، لیکن ان لوگوں نے میری ایک نہیں مانی اور نہ ہی میرا کوئی رابطہ کروایا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں طلاق ہوگی یا نہیں؟
وضاحت:میں نے پہلی مرتبہ یہ جوکہاتھاکہ اپنا سامان اٹھا لو“ یہ میں نے بطوردھمکی کہاتھا۔
واضح رہے کہ جس طرح زبانی طورپرطلاق دینےسے طلاق واقع ہوجاتی ہے،اسی طرح تحریری طورپرطلاق دینےیامیسج کےذریعہ طلاق دینےسے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
لہذاصورت مسئولہ میں جب سائل نےمیسج کےذریعہ اپنےسسرکوتین بارلکھاکہ”میری طرف سے آپ کی بیٹی کوطلاق ہے“ تواس کے لکھنے سے بیوی پرتینوں طلاقیں واقع ہوگئیں ،لہذا بیوی اپنے شوہرپرحرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، نکاح ختم ہوچکا ہے،اب رجوع کی یادوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں ،چوں کے12مئی کو بچی ہوئی ہے ،اور15جون کوسائل نے تین طلاقیں دی ہےتوعورت نفاس کےایام کےبعدتین ماہواریاں عدت پوری کرنےکےبعدچاہےتودوسری جگہ نکاح کے لئے آزاد ہوگی۔
مذکورہ الفاظ چوں کہ طلاق کےلیے صریح ہیں،لہذااس میں نیت کی ضرورت نہیں ،اب چاہے طلاق کی نیت ہویانہ ہو،طلاق واقع ہوچکی ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية".
(كتاب الطلاق، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:473، ط:دارالفكر)
رد المحتار میں ہے:
"قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو."
(کتاب الطلاق، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ، ج:3، ص:246،ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101809
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن