بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مساج/ مالش اور اس کی اجرت کا حکم


سوال

اگر میں مساج سینٹرمیں کام کروں ، جس میں مرد مرد کا مساج کرے اور عورت عورت کا ،مطلب دونوں الگ الگ پارٹیشن ہو اور اسی مساج سینٹرمیں مختلف اور بھی کام ہوتے ہوں ،جیسے مهروں کو ٹھیک کرناوغیرہ ،لیکن مرد کا مساج مرد اور عورت کا مساج عورت کرے، تو کیا اس طرح کے مساج سینٹرز میں  کام کرنا جائز ہے؟ باہر ممالک میں ہونے کی وجہ سے مساج سینٹر میں اکثر غیرمسلم لوگ ہی آتے ہیں، کچھ غیر شرعی كام بھی مساج سینٹر میں ہوتے ہیں، مطلب بھنویں بنوانا، داڑھی منڈوانا وغیرہ،  اور کام کروانے والے اکثر غیر مسلم ہوتے ہیں ،کیا اس چیز کی اجرت لینا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مساج (مالش)   اگر  محض تلذذ  یا شہوت رانی کے لیے ہو تو بالکل ناجائز ہے، تاہم اس کا ایک اہم مقصد  علاج بھی  ہے؛  لہٰذا   بطورِ علاج مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اس کی گنجائش ہوگی:

  1.  مرد  اور عورت  کا بالکل اختلاط نہ ہو۔
  2. مرد مرد کا اور عورت عورت کا ہی مساج کرے۔
  3. ستر کے شرعی احکام کا لحاظ رکھا جائے۔
  4. کسی بھی غیر شرعی کام کا ارتکاب نہ ہو۔

مذکورہ شرائط میں سے کسی شرط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو مساج کرنا اور اس کی اجرت لینا جائز نہیں ہوگا، اور ان شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے مساج کیا جائے تو اس کی اجرت لینا جائز ہوگا، لیکن عمومًا ایسے مقامات پر شرائط کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ، لہذا ان میں  کام کرنے اور  جانے سے اجتناب کیا جائے۔

اسی طرح  اگر مساج میں تو  مذکورہ شرائط کا لحاظ رکھا جائے، لیکن اس جگہ غیر شرعی کام بھی ہوتے ہوں، مثلًا موسیقی چلنا،  داڑھی منڈوانا اور بھنویں بنوانا وغیرہ تو   ایسی جگہ کام کرنا ناجائز ہوگا،  ایسی صورت میں اپنے لیے کوئی جائز  و حلال پیشہ  اختیار کیاجائے۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"لا تجوز الإجارة على شيء من اللهو والمزامير والطبل وغيره؛ لأنها معصية والإجارة على المعصية باطلة؛ ولأن الأجير مع المستأجر يشتركان في منفعة ذلك فتكون هذه الإجارة واقعة على عمل هو فيه شريك."

(كتاب الإجارات، الفصل الخامس عشر: في بيان ما يجوز من الإجارات، وما لا يجوز، ج: 7، ص: 482، ط. دار الكتب العلمية، بيروت)

فتح الباری لابن رجب الحنبلی میں ہے:

"وقال عمرو بنِ ميمون: لا يدخل أحد الفرات إلا بإزار، و لا ‌الحمام إلا بإزار، إلا تستحيون مما استحى منهُ أبوكم آدم؟".

(كتاب الغسل، باب التستر في الغسل عند الناس، ج: 1، ص: 337، ط: مكتبة الغرباء الأثرية)

امام نووی رحمہ اللہ کی المنہاج شرح صحیح مسلم میں ہے:

"وهذا مما تعم به البلوى ويتساهل فيه كثير من الناس باجتماع الناس في الحمام فيجب على الحاضر فيه أن يصون بصره ويده وغيرها عن عورة غيره وأن يصون عورته عن بصر غيره ويد غيره من قيم وغيره ويجب عليه إذا رأى من يخل بشيء من هذا أن ينكر عليه. قال العلماء: و لايسقط عنه الإنكار بكونه يظن أن لا يقبل منه بل يجب عليه الإنكار إلا أن يخاف على نفسه وغيره فتنة والله أعلم".

(كتاب الحيض، باب تحريم النظر إلى العورات، 4/ 31، ط: دار إحياء التراث العربي)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشكاۃ المصابیح میں ہے:

"4476 - وعن عبد الله بن عمرو - رضي الله عنهما - أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " «ستفتح لكم أرض العجم، وستجدون فيها بيوتا، يقال لها: الحمامات، فلا يدخلنها الرجال إلا بالأزر، وامنعوها النساء، إلا مريضة، أو نفساء» ". رواه أبو داود.

(الحمامات فلا يدخلنها الرجال) : نهي مؤكد (إلا بالأزر) : بضمتين جمع إزار في شرح السنة: عن جبير بن نفير قال: قرئ علينا كتاب عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - بالشام: لا يدخل الرجل الحمام إلا بمئزر، ولا تدخله المرأة إلا من سقم ... وعن أبي الدرداء، أنه كان يدخل الحمام فيقول: نعم البيت الحمام يذهب الصنة و يذكر النار. قال الأزهري: أراد بالصنة الصنان يعني بالصاد المهملة: هو زفر الإبط، ورأى ابن عباس حمامًا بالجحفة فدخل و هو محرم، فقال: ما يعبأ الله بأوساخنا شيئًا. قال الإمام في الإحياء: دخل أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم حمامات الشام فقال بعضهم: نعم البيت بيت الحمام يطهر البدن ويذكر النار. روي ذلك عن أبي الدرداء، وأبي أيوب الأنصاري،: و قال بعضهم: بئس البيت بيت الحمام يبدي العورات ويذهب الحياء، فهذا يعرض لآفته وذاك لخصلته ولا بأس لطلب فائدته عند الاحتراز عن آفته، و ذكر الإمام آداب الحمام على وجه الاستقصاء في كتابه الإحياء."

(كتاب اللباس، باب الترجل،ج: 7، ص: 2842، ط: دار الفكر)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’سوال : 8249:  زید کو غیر مسلموں کی داڑھی مونڈنی کیسی ہے ؟

جواب : وہ بھی جائز نہیں ہے ‘‘۔

(فتاویٰ محمودیہ،  ج: 17 ،ص: 122-123 )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512101125

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں