کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا مساجد میں موبائل جیمرز لگانا درست ہے ؟ جب کہ قانوناً اس پر پاپندی ہو اور اگر قانوناً جس جگہ اس پر پاپندی نہ ہو ، تو کیاوہاں اس کا لگانا درست ہے ؟ نیز اگر کسی جگہ جیمرز لگانے پر قانوناً پاپندی نہ ہو،لیکن جیمرز کا اثر مسجد تک محدود نہ رہتا ہو، بلکہ اس کا اثر باہر تک بھی پہنچتا ہو، تواس صورت میں کیا حکم ہے ؟
واضح رہے کہ مساجد میں موبائل فون کی گھنٹیوں کی وجہ سے چوں کہ دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل آتا ہے ،نیز مسجد میں میوزک بجنے کی خرابی بھی لازم آتی ہے ،اس وجہ سے مسجد کی انتظامیہ کے لیے اس کی روک تھام کے لیےمساجد میں موبائل جیمرز لگانا جائز ہے،لیکن مسجد انتظامیہ کو کوشش کرنی چاہیے کہ ان جیمرز کا اثر مسجد تک ہی محدود رہے ،باہر کے لوگوں کو اس سے تکلیف نہ ہو،البتہ اگر کسی جگہ کے نمازی صرف کہنے یا تحریری انتباہ پر عمل کرکے اپنے موبائل فون بند یا سائلنٹ کرلیتے ہوں اور اس میں احتیاط کرتے ہوں تو اس صورت میں موبائل جیمرز لگانے کی ضرورت نہیں ہوگی اور اگر ان موبائل جیمرز کا اثر صرف مسجد تک محدود نہ رہتا ہو ،بلکہ باہر والوں کو اس سے اثر پہنچتا ہو اور انہیں تکلیف ہوتی ہو تو اس صورت میں مسجد کی انتظامیہ پر لازم ہوگا کہ وہ اس موبائل جیمرز کے اثر کو مسجد تک محدود کرکے لوگو ں کی اس پریشانی کا ازالہ کریں اور اگر اس پر قانوناً پابندی ہو تو مسجد انتظامیہ کو چاہیے کہ متعلقہ ادارے سے اس کی اجازت حاصل کرکے جیمرز لگائے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ مسجد میں جیمرز لگانا شرعاً جائز ہے ، تا کہ لوگوں کے خسوع خضوع میں خلل نہ ہو، اور اگر قانوناً منع ہے تو قانونی ادارے سے اجازت لے لیں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ذكر الفقيه - رحمه الله تعالى - في التنبيه حرمة المسجد خمسة عشر..والسادس أن لا يرفع فيه الصوت من غير ذكر الله تعالى. والسابع أن لا يتكلم فيه من أحاديث الدنيا."
(كتاب الكراهية ،الباب الخامس في آداب المسجد،321/5،ط: رشيدية)
العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:
"نعم ويتصرف القيم في الوقف بما فيه من النفع للوقف."
(كتاب الوقف،الباب الثالث في أحكام النظار،200/1،ط:دار المعرفة)
"الفتن لنعيم بن حماد "میں ہے:
"حدثنا يحيى بن سليم الطائفي، عن الحجاج بن فرافصة، عن مكحول، قال: قال أعرابي: يا رسول الله، متى الساعة؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما المسئول عنها بأعلم من السائل، ولكن أشراطها تقارب الأسواق، ومطر ولا نبات، وظهور الغيبة، وظهور أولاد الغية، والتعظيم لرب المال، وعلو أصوات الفساق في المساجد، وظهور أهل المنكر على أهل المعروف، فمن أدرك ذلك الزمان فليرغ بدينه، وليكن حلسا من أحلاس بيته»."
(علامات الساعة بعد طلوع الشمس من مغربها ،642/2،ط: مكتبة التوحيد،القاهرة )
تحفۃ الاحوذی میں ہے:
"(وارتفعت الأصوات) أي علت أصوات الناس (في المساجد) بنحو الخصومات والمبايعات واللهو واللعب."
(كتاب الفتن ،باب ما جاء في علامة حلول المسخ و الخسف،377/6،ط:دار الكتب العلمية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144406101812
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن