محترم جناب مفتی صاحب کیا حکم ہے شریعت مطہرہ کا اس مسئلے کے متعلق کہ آج کل مساجد میں ایک آدھ انچ کا کارپیٹ یا بعض مساجد میں جائےنماز کے نیچے ایک آدھاانچ کا فوم بچھا یا جاتا ہے، بلکہ بعض جگہوں پر تو امام کے لئےجائے نماز کے اوپر مزید موٹے جائے نماز بچھا دئیے جاتے ہیں تو کیا ان موٹے قالین یا جائے نماز پر سجدہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟
کچھ حضرات نے یہ بتایا ہے کہ اتنے موٹے جائے نماز اور قالین پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے اگر چہ پیشانی رکھنے کے بعد وہ قالین یا جائے نماز پر ٹک جائے اور اندرنہ دبے، کیونکہ مساجد زمین کی سختی کو محسوس نہیں کررہا تا اور سر کا بوجھ بھی محسوس نہیں کرتا، جبکہ سجدہ میں یہ محسوس کرنا شرط بتایا ہے، بعض حضرات نے یہ بتایا ہے کہ ایسے موٹے قالین اور جائے نماز پر سجدہ کرنا جائز ہے کہ سر رکھنے کے بعد سر قرار پالے اور اندر نہ دبے، اور یہی معنی صلابۃ الارض ، ہجم الراس اور استقرار کا ہے۔
دونوں فریق میں سے پہلے فریق نے یہ استدلال بتایا ہے ؛
"كما أنه يجوز السجود على الأرض يجوز على ما هو بمعنى الأرض مما تجد جبهته حجمه وتستقر عليه وتفسير وجدان الحجم أن الساجد لو بالغ لا يتسفل رأسه أبلغ من ذلك" (البحر الرائق ج: 1 ص:219)
جبکہ فریق ثانی یہ دلیل بتایا ہے:
"ولو سجد على الحشيش أو التبن أو على القطن أو الطنفسة أو الثلج إن استقرت جبهته وأنفه ويجد حجمه يجوز وإن لم تستقر لا" (علمگيريہ ج:1 ص: 70 كذا في الشامي ج: 1 ص: 227)
اب آپ حضرات متعین فرمادیں کہ حق صورت کونسی ہے اور کونسا فریق برحق ہے؟
واضح رہے کہ ایسے فوم یا جائے نماز میں نماز پڑھنا جس پر سجدہ کرنے سے سر زمین پر ٹک جائے چاہے تھوڑا دباؤ کے ذریعہ ٹکے اور زمین کی سختی محسوس ہو تو نماز اس پر جائز ہے،اور یہی حکم ہے اس قالین کا جس کے نیچے نرم فوم ہو اور قالین کی وجہ سے فوم کی نرمی محسوس نہ ہوتے ہو ، البتہ اگر قالین یا فوم اتنے موٹے ہو کہ سجدہ کرنے کی صورت میں سر اس پر قرار نہ پائے اور اندر ہی دب جائے تو ایسے قالین یا فوم پر نماز پڑھنا نا جائز ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سر زمین پر قرار پائے چاہے قالین کے اوپر سے ہو یا ایسے فوم کے اوپر ہو جس پرسجدہ کرنے سے سراندر نہ دبے یعنی زمين كی سختی محسوس ہوتی ہو تو اس پر نماز پڑھنا درست ہے ،نیز سائل نے فریق ثانی کا حوالہ نقل کیا ہے اس میں بھی استقرار انف اور جبھہ کی صورت میں جائز قرار دیا ہے، اور اسی استقرار کے لئے زور لگانے کا نہ حکم ہے اور نہ ہی ضروری ہے،بلکہ عام حالات میں وضع الجبھہ علی الارض کافی ہے۔
البحر الرائق میں ہے:
"وتفسير وجدان الحجم أن الساجد لو بالغ لا يتسفل رأسه أبلغ من ذلك فيصح السجود على الطنفسة والحصيرة والحنطة والشعير والسرير والعجلة إن كانت على الأرض؛ لأنه يجد حجم الأرض، بخلاف ما إذا كانت على ظهر الحيوان؛ لأن قرارها حينئذ على الحيوان كالبساط المشدود بين الأشجار."
(کتاب الصلاۃ، الفصل الأول دي فرائض الصلاة، ج: 1 ص: 70 ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(لا) يصح لعدم السجود على محله وبشرط طهارة المكان وأن يجد حجم الأرض والناس عنه غافلون.
قوله(وأن يجد حجم الأرض) تفسيره أن الساجد لو بالغ لا يتسفل رأسه أبلغ من ذلك، فصح على طنفسة وحصير وحنطة وشعير وسرير وعجلة وإن كانت على الأرض لا على ظهر حيوان كبساط مشدود بين أشجار، ولا على أرز أو ذرة إلا في جوالق أو ثلج إن لم يلبده وكان يغيب فيه وجهه ولا يجد حجمه، أو حشيش إلا إن وجد حجمه، ومن هنا يعلم الجواز على الطراحة القطن، فإن وجد الحجم جاز وإلا فلا."
(کتاب الصلاۃ،باب صفة الصلاۃ،ج:1،ص:501،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607100181
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن