1: امام جبکہ سلام پھیر لے اور اور مسبوق کھڑے ہو کر بقیہ نماز پوری کر لیتا ہے تو مسبوق کب کھڑا ہو جائے؟ ویسے تو عرف میں جیسے ہی امام پہلا سلام پھیر دیتا ہے تو مسبوقین کھڑے ہوتے ہیں، کوئی امام کی فراغت از سلام کے بعد کھڑے ہوتے ہیں، بعض سلام کے شروع ہوتے ہی کھڑے ہوتے ہیں، اردوفتاویٰ جات میں مختلف طرح کے احکام لکھے ہوئے ہیں، کہیں پر ہے کہ دونوں سلام کے بعد کھڑا ہو جائے، کہیں پر ہے کہ پہلے سلام کے بعد کھڑا ہو جائے، صحیح حکم کیا ہے، اس کی راہ نمائی فرمائیں؟
2: لفظ سلام میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ میں کس لفظ پر سلام پھیرا جائے ؟
3: بعض امام سلام پھیرتے وقت لفظ السلام کو بہت لمبا پڑھتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض مقتدی اس سے آگے چہرہ پھیرتے ہیں اور سلام کہتے ہیں، ان مقتدیوں کی نمازوں کا کیا حکم ہے؟
1: امام کے ایک طرف سلام پھیرنے کے بعد نماز مکمل ہوجاتی ہے، اس کے بعد مسبوق اپنی باقی نماز کے لیے کھڑا ہوجاتا ہے تو یہ جائز ہے،البتہ مسبوق کے لیے بہتر یہ ہے وہ امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد کچھ معمولی انتظار کے بعد اپنی باقی نماز مکمل کرنے کے لیے اٹھے، تاکہ اس کو یقین ہوجائے کہ امام پر سجدہ سہو نہیں ہے، اور امام پر سجدہ سہو ہونے کی صورت میں اس کو واپس لوٹنا نہ پڑے۔
2: اگر اکیلا نماز پڑھنے والا ہے تو تشہد، درود شریف اور دعا کے بعد سلام پھیرے اور گردن قبلہ کی طرف سے دائیں اور بائیں طرف پھیرتے ہوئے "السلام علیکم ورحمۃ اللہ " کہے، اور اگر مقتدی ہے تو بہتر یہ ہے کہ جب امام دائیں طرف سلام پھیرلے تو وہ اس کے بعد دائیں طرف سلام پھیرے اور جب امام بائیں طرف سلام پھیرے تو امام کے سلام کرنے کے بعد وہ بھی بائیں طرف سلام پھیرے، یہ صاحبین رحمہا اللہ کا قول ہے اور اس میں احتیاط ہے کہ کہیں مقتدی سلام میں امام سے آگے نہ بڑھ جائے اور امام سے پہلے سلام مکمل نہ کرلے۔
3: مقتدیوں کو امام سے پہلے سلام نہیں کرنا چاہیے، بغیر عذر ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے، لہذا مقتدی امام کے ساتھ سلام پھیریں یا امام کے سلام کرنے کے بعد سلام کریں، البتہ اگر امام کے سلام لمبا کرنے کی وجہ سے مقتدی کا سلام پہلے مکمل ہوگیا تو نماز فاسد نہیں ہوگی ، ا س کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"لو قام إلى قضاء ما سبق به وعلى الإمام سجدتا سهو) ولو قبل اقتدائه (فعليه أن يعود) وينبغي أن يصبر حتى يفهم أنه لا سهو على الإمام ...الخ
(قوله: وينبغي أن يصبر) أي لا يقوم بعد التسليمة أو التسليمتين، بل ينتظر فراغ الإمام بعدهما كما في الفيض والفتح والبحر. قال الزندويستي في النظم يمكث حتى يقوم الإمام إلى تطوعه أو يستند إلى المحراب إن كان لا تطوع بعدها. اهـ. قال في الحلية: وليس هذا بلازم، بل المقصود ما يفهم أن لا سهو على الإمام أو يوجد له ما يقطع حرمة الصلاة. اهـ."
(كتاب الصلاة، باب الإمامة، 1/ 597، ط: سعيد)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"(ثم يسلم تسليمتين) تسليمة عن يمينه وتسليمة عن يساره ويحول في التسليمة الأولى وجهه عن يمينه حتى يرى بياض خده الأيمن وفي التسليمة الثانية عن يساره حتى يرى بياض خده الأيسر وفي القنية هو الأصح. هكذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم ويقول: السلام عليكم ورحمة الله كذا في المحيط المختار أن يكون السلام بالألف واللام وكذلك في التشهد. كذا في الظهيرية. ولا يقول في هذا السلام في آخره وبركاته عندنا والسنة في السلام أن تكون التسليمة الثانية أخفض من الأولى. كذا في المحيط وهو الأحسن. كذا في استدبر القبلة لا يأتي بها. كذا في القنية، ولو سلم أولا عن يساره فإنه يسلم عن يمينه ما لم يتكلم ولا يعيد السلام عن يساره. ولو سلم تلقاء وجهه يسلم عن يساره. كذا في التبيين. اختلفوا في تسليم المقتدي قال الفقيه أبو جعفر المختار أن ينتظر إذا سلم الإمام عن يمينه يسلم المقتدي عن يمينه وإذا فرغ عن يساره يسلم المقتدي عن يساره. كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الصلاة، الباب الرابع في صفة الصلاة، الفصل الرابع، 1/ 76، ط: رشيدية)
فتاوی شامی میں ہے :
"(ثم يسلم عن يمينه ويساره) حتى يرى بياض خده... وتنقطع به التحريمة بتسليمة واحدة برهان وقد مر وفي التتارخانية ما شرع في الصلاة مثنى فللواحد حكم المثنى، فيحصل التحليل بسلام واحد كما يحصل بالمثنى وتتقيد الركعة بسجدة واحدة كما تتقيد بسجدتين (مع الإمام) إن أتم التشهد كما مر... (كتحريمة) مع الإمام. وقالا: الأفضل فيهما بعده (قائلا السلام عليكم ورحمة الله) هو السنة.
(قوله: مع الإمام) متعلق بالتحريمة، فإن المراد بها هنا المصدر أي كما يحرم مع الإمام، وإنما جعل التحريمة مشبها بها لأن المعية فيها رواية واحدة عن الإمام، بخلاف السلام فإن فيه روايتين عنه أصحهما المعية ح (قوله: وقالا الأفضل فيهما بعده) أفاد أن خلاف الصاحبين في الأفضلية وهو الصحيح نهر. وقيل في الجواز حتى لا يصح الشروع بالمقارنة في إحدى الروايتين عن أبي يوسف ويكون مسيئا عند محمد كما في البدائع. وفي القهستاني: وقال السرخسي: إن قوله أدق وأجود وقولهما أرفق وأحوط. وفي عون المروزي: المختار للفتوى في صحة الشروع قوله وفي الأفضلية قولهما. اهـ."
(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة،1/ 524، ط: سعيد )
وفیہ أیضاً:
"ولو أتمه قبل إمامه فتكلم جاز وكره.
(قوله: لو أتمه إلخ) أي لو أتم المؤتم التشهد، بأن أسرع فيه وفرغ منه قبل إتمام إمامه فأتى بما يخرجه من الصلاة كسلام أو كلام أو قيام جاز: أي صحت صلاته؛ لحصوله بعد تمام الأركان؛ لأن الإمام وإن لم يكن أتم التشهد لكنه قعد قدره؛ لأن المفروض من القعدة قدر أسرع ما يكون من قراءة التشهد وقد حصل، وإنما كره للمؤتم ذلك؛ لتركه متابعة الإمام بلا عذر، فلو به كخوف حدث أو خروج وقت جمعة أو مرور مار بين يديه فلا كراهة، كما سيأتي قبيل باب الاستخلاف (قوله: فلو عرض مناف) أي بغير صنعه كالمسائل الاثني عشرية وإلا بأن قهقه أو أحدث عمداً فلا تفسد صلاة الإمام أيضاً كما مر".
(کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ، 1/ 525، سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144608101852
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن