بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

معصیت کی وجہ سے قطع تعلق


سوال

ہندہ لڑکی نے زید کے ساتھ بھاگ کر نکاح کرلیا ،زید چونکہ غیر قوم کا فرد تھا اس لیے لڑکی کی قوم کے بااثر افراد زید سے خلع لے کر ہندہ کو گھر لائے ،کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہندہ کے والدین نے اس کا نکاح بکر سے کرلیا جس میں قوم کے بااثر افراد بھی شامل تھے ،عرصہ دوسال گزرنے کے بعد ہندہ کے والدین نے اپنی بیٹی کی رضامندی سے بکر سے بزور عدالت خلع لے لیا ،خلع کے ٹھیک دو ہفتہ بعد ہندہ نے والدین کے مشورے سے خالد  سے نکاح کرلیا جبکہ خالد تین یا چار بچوں کا باپ بھی ہے اور لڑکی کے اس طرح باربار نکاح کرنے سے قوم کے بااثر افراد کافی ناراض ہیں اور آئندہ ایسے فتنہ کا دروازہ کھلنے کا امکان ہے جس کا سد باب دورافتادہ معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ پہلے ہمارے علاقہ میں اس طرح کی وبا نہیں تھی جب ایک بار نکاح ہوجاتا تو لڑکی اپنے شوہر کی فرمانبرداری میں اپنی زندگی گزاردیتی لیکن جدا ہونے کا نام زبان پر لانا عار سمجھتی تھی جبکہ آج کل آئے دن خلع لینا ایک عام سی بات ہوتا جارہا ہے ،الامان والحفیظ،اب دریافت طلب یہ ہے کہ ہندہ نے بکر سے خلع لینے کے بعد عدت مکمل کیے بغیر خالد سے نکاح کرلیا کیا شرعا یہ نکاح درست ہے یا نہیں ؟اور کیا شوہر جب تک خلع نہ دے اور نہ ہی کسی کو خلع دینے کا وکیل بنائے تو کیا عدالت کو یہ حق حاصل ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی کرادے فقط ان الزامات کے تحت کہ شوہر ظالم ہے نان ونفقہ نہیں دیتا وغیرہ ،نیز یہ بھی تحریر كریں کہ ہندہ کے والدین سے جو اس قبیح حرکت کے سبب ہیں پوری قوم دست بردار ہونا چاہے اور قطع تعلقی کا اعلان کردے تو کیا از رروئے شریعت ان کو برادری سے خاارج کرکے ان سے ہر قسم کے تعلق کو ختم کرنا جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ  خلع میاں بیوی کی باہمی رضامندی سے طے پاتا ہے، اور لڑکی کی طرف سے خلع کے  پیشکش کے بعد شوہر اس کو اگر قبول  کرلے تو  خلع ہوجاتا ہے، اگر شوہر قبول نہ کرے تو شرعا خلع نہیں ہوتا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں ہندہ نے اگر شوہر کی اجازت و رضامندی کے بغیر عدالت سے یکطرفہ خلع لیا تھا جس کو شوہر نے قبول نہیں کیا تھا،تو اس صورت میں عدالت سے يكطرفہ خلع شرعاً  واقع نہیں ہوئی، ان کا نکاح برقرار ہے اور پہلے شوہر كے نكاح ميں ہوتے ہوئے دوسرے شخص سے اس کے دو ہفتے کے بعد  نكاح كرنا جائز نہیں۔ لہذا  خاندان کے بزرگوں اور مقتدر حضرات کو چاہیئے کہ ان کو سمجھائیں،اور دونوں میں علیحدگی کی کوشش کریں ، اگر اصلاح کی طرف آجاتے ہیں،دونوں میں علیحدگی ہو جاتی ہے  تو اچھی بات ہے، لیکن اگر بات چیت مؤثر نہ ہورہی ہو اور مزید فتنہ پھیلنے کا اندیشہ ہواور تعلق ختم کرنے سے ان کی اصلاح کی امید ہو  تو لوگوں کو ان کے فتنے سے بچانے کے لئے اور ان کی اصلاح کی غرض سے قطع تعلق کرنا جائز ہوگا۔ 

حدیث مبارک ہے:

"عن أبي أيوب الأنصاري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ولا يحل للرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام ". متفق عليه.»."

(مشكوىة المصابيح،  كتاب الآداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، رقم الحديث:5027)

مرقاة المصابيح ميں هے:

"قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب على أخيه ثلاث ليال لقلته، ولا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك. وفي حاشية السيوطي على الموطأ، قال ابن عبد البر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك ورفيقيه، حيث أمر صلى الله عليه وسلم أصحابه بهجرهم، يعني زيادة على ثلاث إلى أن بلغ خمسين يوما. قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق، فإنه صلى الله عليه وسلم لما خاف على كعب بن مالك وأصحابه النفاق حين تخلفوا عن غزوة تبوك أمر بهجرانهم خمسين يوما، وقد هجر نساءه شهرا وهجرت عائشة ابن الزبير مدة."

( مرقاة المصابيح شرح مشكاة المصابيح،كتاب الآداب،باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات،3146/8، دارالفكر بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100555

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں