بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کا کچھ حصہ نئی تعمیر میں چھوڑنا جائز نہیں


سوال

پرانی مسجد کو شہید کر کے نئی مسجد تعمیر کرنی ہے،  مگر پرانی مسجد کے صحن کا کچھ حصہ مسجد سے باہر رہ جاتا ہے، زیادہ تر حصہ مسجد میں آجاتاہے مگر تھوڑا سا باہر رہ جاتا ہے،  کیا یہ جائز ہے ؟

جواب

واضح رہےکہ جوجگہ ایک بارمسجد بن جائےوہ پھرہمیشہ کےلیےمسجدہوتی ہے، اسےچھوڑنااورمسجدسےعلیٰحدہ کرناجائز نہیں ہوتا، لہذاصورتِ مسئولہ  میں مسجد کی نئی تعمیر کےدوران  مسجد کاکچھ حصہ  چھوڑکراسےمسجد سےالگ کرناجائز نہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة."

(کتاب الوقف، مطلب فيما لو خرب المسجد أو غيره، 358/4، سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإذا خرب المسجد واستغنى أهله وصار بحيث لا يصلى فيه عاد ملكا لواقفه أو لورثته حتى جاز لهم أن يبيعوه أو يبنوه دارا وقيل: هو مسجد أبدا وهو الأصح، كذا في خزانة المفتين."

(كتاب الوقف، الباب الحادي عشر في المسجد، الفصل الأول فيما يصير به مسجدا وفي أحكامه وأحكام ما فيه، 458/2، ط:دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"إن أرادوا أن يجعلوا شيئا من المسجد طريقا للمسلمين فقد قيل: ليس لهم ذلك وأنه صحيح، كذا في المحيط

ولو كان مسجد في محلة ضاق على أهله ولا يسعهم أن يزيدوا فيه فسألهم بعض الجيران أن يجعلوا ذلك المسجد له ليدخله في داره ويعطيهم مكانه عوضا ما هو خير له فيسع فيه أهل المحلة قال محمد - رحمه الله تعالى -: لا يسعهم ذلك، كذا في الذخيرة."

(كتاب الوقف، الباب الحادي عشر في المسجد، الفصل الأول فيما يصير به مسجدا وفي أحكامه وأحكام ما فيه، 457/2، ط:دار الفکر)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"الجواب حامداً ومصلياً :

جو جگہ مسجد بن چکی ہے وہ ہمیشہ کے لئے مسجد ہے، اس کو چھوڑنے اور مسجد سے علیحدہ کرنے کا حق نہیں، البتہ جو حصہ مسقف ہو وہ کچھ صحن میں آجائے ، یا اس کا عکس ہو جائے تو مضائقہ نہیں ، مگر رہے مسجد ہی میں ، اس سے خارج نہ ہو، نہ کسی اور کام میں اس کو لایا جائے۔"

(باب أحکام المساجد، ج:14، ص:533)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101116

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں