محلے کی مسجد کے لیے اہل علاقہ سے ماہانہ بنیاد پر چندہ اکٹھا کرنا میرے ذمہ ہے، جو مکمل جمع کرکے مہینہ کے کسی بھی تاریخ کو انتظامیہ کے حوالے کر دیتا ہوں تو اس ضمن میں کچھ سوالات پوچھنے ہیں:
اول :یہ کہ کچھ لوگ مجھے راستے میں ہی چندہ دے دیتے ہیں، جو میں جا کر رجسٹر میں درج کرکے پیسے متعلقہ جگہ پر رکھ دیتا ہوں ،لیکن بسا اوقات وہ پیسے اپنی متعلقہ جگہ پر رکھنے سے پہلے میں انہیں اپنے کسی کام میں لگا لیتا ہوں اور پھر بعد میں مسجد کے پیسوں میں رکھ دیتا ہوں یعنی رجسٹر میں لکھ تو دیتا ہوں لیکن پیسے بعد میں رکھتا ہوں۔
دوسرا: یہ کہ کبھی کبھار جب گھر والوں کو ایمرجنسی ضرورت ہوتی ہے تو چوں کہ مسجد کے پیسے قریب ہی پڑے ہوتے ہیں ،تو وہ یہاں سے اُٹھا کر استعمال کرلیتے ہیں اور بعد میں رکھ دیتے ہیں تو اب پوچھنا یہ تھا کہ میرا اور میرے گھر والوں کا ایسا کرنا باعثِ گناہ تو نہیں ہے؟ یاد رہے کہ مسجد کے پیسوں سے الحمدللہ ایک روپیہ بھی اِدھر اُدھر نہیں ہوتا ،بس وقتی ضرورت کے تحت استعمال کر کے واپس رکھ دیتے ہیں، بلکہ کبھی کبھی میں اپنی جیب سے کچھ پیسے چندہ کے پیسوں میں اس نیت سے ڈال دیتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ کچھ کمی بیشی ہوئی ہو تو پوری جائے۔
صورتِ مسئولہ میں جب محلے کی مسجد کے لیے اہلِ علاقہ سے چندہ جمع کرنا سائل کے ذمہ ہے اور چندہ جمع کرنے کے بعد سائل وہ چندہ انتظامیہ کے حوالے کرتا ہے تو یہ چندہ کی رقم سائل کے پاس امانت ہوتی ہے اور امانت کی چیز کو مالک کی اجازت کے بغیر امین کےلئے استعمال کرنا شرعاً درست نہیں اور مذکورہ صورت میں چوں کہ یہ چندہ کی رقم مسجد کے لیے وقف ہے تو واقفین کی اجازت کے بغیر امین(سائل اور اس کے گھر والوں ) کے لیے اس کو ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں اور اگر استعمال کرلیا تو ایسا کرنا باعثِ گناہ ہے اور سائل کے ذمہ اسی قدر رقم واپس کرنا لازم ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني ۔الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن، وإن فعل شيئا منها ضمن، كذا في البحر الرائق."
(كتاب الوديعة، الباب الأول في تفسير الايداع،338/4 ، ط: رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144401101304
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن