بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے لیے وقف کردہ زمین کو فروخت کرکے رقم کسی اور مسجد میں لگانا


سوال

گاؤں میں میری زمین ہے جو میں نے مسجد کے لیے دی تھی، لیکن فی الحال اس میں کام شروع نہیں ہوا، اس گاؤں میں دو مسجدیں اور بھی ہیں ، میں نے گاؤں والوں سے کہا کہ اس زمین میں مسجد بنادو، تو گاؤں والوں نے کہا پہلے سے جو مسجدیں بنی ہوئی ہیں وہ ہم سے آباد نہیں ہورہی، اب یہ زمین بارہ سال سے ایسی ہی پڑی ہوئی ہے ، اور اس زمین کے آس پاس اور لوگوں کی زمین ہے تو مسجد آنے جانے کا راستہ بھی نہیں ہے ۔ 

تو آیا اس صورت میں یہ زمین جو میں نے مسجد کو دی ہے، اس کو فروخت کرکے اس کے پیسوں کو دوسری مساجد کی تعمیر میں لگاسکتا ہوں ؟

جواب

جب کوئی زمین حد بندی کر کے مسجد کے لیے وقف کردی جائے تو وقف کرتے ہی وہ جگہ واقف کی ملکیت سے نکل کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ تعالی کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد  نہ اس کو فروخت کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی اور مصرف میں استعمال کی جاسکتی ہے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ اگر سائل نے  اپنی زمین میں سے  متعین جگہ باقاعدہ مسجد کے لیے وقف کردی تھی ، اور اہل محلہ سے بھی کہہ دیا تھا کہ یہاں مسجد تعمیر کردیں ،تو  اب اس جگہ کو فروخت  کرکے کسی اور مسجد میں اس کی رقم لگانایااس جگہ کو کسی اور مصرف میں  تبدیل کرنا جائز نہیں ہے۔البتہ جب تک مسجد بنانے  کی استطاعت نہ ہو اس وقت تک اس جگہ کی آمدنی اگر  ہوتی ہو تواس آمدنی کو کسی مسجد میں استعمال کرلیاجائے۔  اورجیسے ہی استطاعت ہو توسائل اور اہل محلہ کو چاہیے کہ اس جگہ کو تعمیر کر کے مسجد  کی شکل دے دیں ۔  

فتاوی شامی میں ہے:

"(وركنه الألفاظ الخاصة ك) أرضي هذه (صدقة موقوفة مؤبدة على المساكين ونحوه) من الألفاظ كموقوفة لله تعالى أو على وجه الخير أو البر واكتفى أبو يوسف بلفظ موقوفة فقط قال الشهيد ونحن نفتي به للعرف.

  وفي الرد:(قوله: وشرطه شرط سائر التبرعات) أفاد أن الواقف لا بد أن يكون مالكه وقت الوقف ملكا باتا."

‌‌(كتاب الوقف، ج:4،ص:340، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے :

 ' ثم إن أبا يوسف يقول يصير وقفا بمجرد القول لأنه بمنزلة الإعتاق عنده، وعليه الفتوى .'

(كتاب الوقف ، ج 4 ،ص 338 ،ط :سعید )

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما".

(ج:2،ص؛350، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144511100199

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں