بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے لیے وقف کردہ جگہ پر نماز کی جگہ اور وضوخانہ وغیرہ بنانا


سوال

1۔ایک شخص نے مسجد کے نام پر چار پلاٹ وقف کرکے مجھے دے دیے ، اس نے کہا اس پر مسجد بناؤ،اب کیا ہم اس زمین پر مسجد علاوہ بیت الخلاء ،امام اور مؤذن کا گھر بناسکتے ہیں؟ یعنی مسجد کی ضروریات جن کی ضرورت ہوتی ہے انہیں تعمیر کرسکتے ہیں۔

2۔اگر ہم مسجد کے نیچے تہہ خانہ بنائیں اور اس میں وضو خانہ ،بیت الخلاء بنائیں،اس کے اوپر مسجد بنائیں ،نیچے جگہ میں نماز نہ ہوتی ہو توکیا یہ جائز ہے؟

جواب

1۔صورت مسئولہ میں جو پلاٹ مسجد بنانے کے لیےوقف کیےگئے ہیں ،ان پلاٹوں پر نماز پڑھنے کی جگہ کے علاوہ  مسجد کی دیگر ضروریات یعنی وضوخانہ ،بیت الخلاء،امام مسجداور مؤذن کی رہائش کے لیے کمرے بنانے کی بھی اجازت ہے،اس لیے کہ عرف میں مسجد کےلیے وقف زمین پر نماز کی جگہ کے ساتھ ان اشیاء کی تعمیر کی بھی اجازت ہوتی ہے ۔لیکن اگر واقف نے مسجد کے لیےجگہ دیتے وقت یہ صراحت کی تھی کہ یہ  جگہ صرف نماز پڑنے کے لیےہی ہے ،وضوخانہ وغیرہ نہ بنائے جائیں تو اس صورت میں اس جگہ پر وضوخانہ وغیرہ بنانے کی اجازت نہیں ہوگی ۔بہتر یہ ہے کہ واقف اگر حیات ہے تو اس سے صراحتا ً  اس امر کی اجازت لے لی جائے ۔

2۔مسجد میں  جو جگہ نماز پڑھنے کے لیے مختص  کی جائے وہ  ہمیشہ کے لیے زمین کی تہہ سے اوپر آسمان تک مسجد کے حکم میں ہو تی ہے اور حدودِ مسجد میں ایسی چیز کی تعمیر کرنا جائز نہیں ہے جس سے مسجد کے احترام میں خلل آتا ہو،لہذا مسجد میں  نماز پڑھنے کے لیے مختص جگہ کے نیچے بیت الخلاء اور وضو خانہ بنانا جائز نہیں ہو گا۔

البحر الرائق  میں ہے:

"حاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله وعلوه مسجداً، لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله تعالى: {وأن المساجد لله} بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لمصالح المسجد، فإنه يجوز، إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتاً على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لايضر في كونه مسجداً، لأنه من المصالح.

فإن قلت: لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره هل له ذلك قلت: قال في التتارخانية: إذا بنى مسجداً وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لايتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لايصدق. اهـ".

(کتاب الوقف، فصل فی احکام المسجد،ج:5، ص:271،  ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

" [فرع] لو بنى فوقه بيتا للإمام لا يضر لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية، فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره فيجب هدمه ولو على جدار المسجد، ولا يجوز أخذ الأجرة منه ولا أن يجعل شيئا منه مستغلا ولا سكنى بزازية.

(قوله: أما لو تمت المسجدية) أي بالقول على المفتى به أو بالصلاة فيه على قولهما ط وعبارة التتارخانية، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا بترك اهـ وبه علم أن قوله في النهر، وأما لو تمت المسجدية، ثم أراد هدم ذلك البناء فإنه لا يمكن من ذلك إلخ فيه نظر؛ لأنه ليس في عبارة التتارخانية ذكر الهدم وإن كان الظاهر أن الحكم كذلك (قوله: فإذا كان هذا في الواقف إلخ) من كلام البحر والإشارة إلى المنع من البناء (قوله: ولو على جدار المسجد) مع أنه لم يأخذ من هواء المسجد شيئا. اهـ. ط ونقل في البحر قبله ولا يوضع الجذع على جدار المسجد وإن كان من أوقافه. اهـ.

قلت: وبه حكم ما يصنعه بعض جيران المسجد من وضع جذوع على جداره فإنه لا يحل ولو دفع الأجرة (قوله: ولا أن يجعل إلخ) هذا ابتداء عبارة البزازية، والمراد بالمستغل أن يؤجر منه شيء لأجل عمارته وبالسكنى محلها وعبارة البزازية على ما في البحر، ولا مسكنا وقد رد في الفتح ما بحثه في الخلاصة من أنه لو احتاج المسجد إلى نفقة تؤجر قطعة منه بقدر ما ينفق عليه، بأنه غير صحيح. قلت: وبهذا علم أيضا حرمة إحداث الخلوات في المساجد كالتي في رواق المسجد الأموي، ولا سيما ما يترتب على ذلك من تقذير المسجد بسبب الطبخ والغسل ونحوه ورأيت تأليفا مستقلا في المنع من ذلك."

( کتاب الوقف،ج:4، ص:358،  ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100523

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں