بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1446ھ 16 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مسجد دور ہونےکے سبب گھر میں جماعت کرانا اور صف بندی کی ترتیب


سوال

 افطار ی کے بعد ہم گھر کے جتنے افراد ہیں مسجد دور ہو نے کی سبب گھر میں ہی جماعت پڑھتے ہیں ،جس میں میرے بھائی ،بھتیجے سب شامل ہو تے ہیں اور والد صاحب بھی، اب یہ ہے کہ ساتھ میری والدہ ایک صف میں جماعت ادا کرتی ہے تو کیا یہ جماعت سے نماز پڑھنا درست ہے؟اوراس کی ترتیب کاطریقہ کار کیا ہے؟ 

جواب

اولاً تو حتی الامکان کوشش کی جائے کہ مسجد کی جماعت ترک نہ کی جائے،بلکہ مرد حضرات مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کریں ،مسجد دور ہونے کی صورت میں بھی جتنے قدم مسجد کی طرف جانے کے لیے اٹھیں گے اتنا ہی اجر و ثواب ملتارہے  گا۔

تاہم اگر مسجد جانے کی صورت میں وہاں کی جماعت کے فوت ہوجانے کا ظن غالب ہو تو اس صورت میں گھر میں  گھر کے افراد کو نماز جماعت سے پڑھانا چاہے تو پڑھا سکتا ہے، اور  ایسی صورت میں  انفرادی نماز پڑھنے کے مقابلہ میں گھر میں جماعت کے ساتھ نماز پڑ ھنا افضل ہے۔

گھر میں نماز کی جماعت میں  صف بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ مرد خود آگے کھڑا ہوجائے،  پہلی  صف میں مرد اور بچے (لڑکے) کھڑے ہوں اوراس سے پچھلی صف میں بیوی ، والدہ یا گھر  کی دیگر خواتین  کھڑی ہوں۔ 

ایک ہی صف میں مردوں کے ساتھ کسی عورت کا اگرچہ محرم ہی کیوں نہ ہو، کھڑا ہونا ،جائز نہیں ہے۔

مشکاۃالمصابیح میں ہے :

"عن جابر قال: خلت البقاع حول المسجد فأراد بنو سلمة أن ينتقلوا قرب المسجد فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فقال لهم: بلغني أنكم تريدون أن تنتقلوا قرب المسجد . قالوا: نعم يا رسول الله قد أردنا ذلك. فقال: يا بني سلمة دياركم تكتب آثاركم دياركم تكتب آثاركم"

(كتاب الصلاة،باب المساجد ومواضع الصلاة،الفصل الأول،ج:1 ،ص: 220 ،ط: المکتب الاسلامی بیروت)

"ترجمہ :جابر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ مسجد کے ارد گرد کی جگہیں خالی ہو گئیں، تو بنو سلمہ قبیلہ مسجد کے قریب منتقل ہونا چاہتا تھا۔ جب یہ بات نبی کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا:"مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم مسجد کے قریب منتقل ہونا چاہتے ہو؟"انہوں نے عرض کیا: ہاں، یا رسول اللہ! ہم نے یہی ارادہ کیا ہے۔"تب نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"اے بنی سلمہ! اپنے گھروں میں ہی رہو، تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں۔ اپنے گھروں میں رہو، تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں۔"

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "مَن توضّأ فأحسَنَ وضوءَه، ثمَّ راحَ فوجد الناسَ قد صلّوا، أعطاه الله عز وجل مثلَ أجرِ مَن صلاّها وحَضَرَها، لا يَنقُصُ ذلك من أجرِهم شيئاً."

(كتاب الصلاة،باب فيمن خرج يريد الصلاة فسُبق بها،ج:1،ص:423 ، ط:دارالرسالۃ العلمیۃ)

"ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"جو شخص وضو کرے اور خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر (نماز کے لیے) جائے، لیکن وہاں پہنچنے پر دیکھے کہ لوگ (نماز) پڑھ چکے ہیں، تو اللہ تعالیٰ اسے بھی ان لوگوں کے برابر اجر عطا فرمائے گا، جنہوں نے وہ نماز (جماعت کے ساتھ) ادا کی اور اس میں حاضر رہے، اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔"

درمختار میں ہے : 

"(فتسن أو تجب) ثمرته تظهر في الإثم بتركها مرة (على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج)۔۔۔۔(فلا تجب على مريض ومقعد وزمن ومقطوع يد ورجل من خلاف) أو رجل فقط، ذكره الحدادي (ومفلوج وشيخ كبير عاجز وأعمى) وإن وجد قائدا (ولا على من حال بينه وبينها مطر وطين وبرد شديد وظلمة كذلك) وريح ليلا لا نهارا، وخوف على ماله، أو من غريم أو ظالم، أو مدافعة أحد الأخبثين، وإرادة سفر، وقيامه بمريض، وحضور طعام (تتوقه) نفسه ذكره الحدادي، وكذا اشتغاله بالفقه لا بغيره."

(كتاب الصلاة،باب الإمامة ،ج:1 ،ص: 554 ،ط:ایچ ایم سعید)

فتاوى ہندیہ میں ہے:

"إذا فاتته الجماعة لا يجب عليه الطلب في مسجد آخر بلا خلاف بين أصحابنا لكن إن أتى مسجدا آخر ليصلي بهم مع الجماعة فحسن وإن صلى في مسجد حيه فحسن وذكر القدوري أنه يجمع في أهله ويصلي بهم وذكر شمس الأئمة الأولى في زماننا إذا لم يدخل مسجد حيه أن يتبع الجماعات وإن دخله صلى فيه."

(كتاب الصلاة ،الباب الخامس في الإمامة  ،الفصل الأول في الجماعة،ج:1 ،ص:83 ،ط:دارالفکر بیروت)

وفیہ ایضاً:

"ولو اجتمع الرجال والصبيان والخناثى والإناث والصبيات المراهقات يقوم الرجال أقصى ما يلي الإمام ثم الصبيان ثم الخناثى ثم الإناث ثم الصبيات المراهقات."

(كتاب الصلاة ،الباب الخامس في الإمامة  ،الفصل الخامس في بيان مقام الإمام والمأموم،ج:1 ،ص:89 ،ط:دارالفکربیروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144609100454

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں