بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

طویل مدت تک لیز پر ملنے والی زمین پر مسجد بنانے کا حکم


سوال

 رو در یگس جزیرہ بحر ہند میں کئی جزیروں میں سے ایک ہے،  یہ جنوب مغرب میں واقع ہے اور موریشس کے کزی جزیرےسے تقریباً 600 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، یہ موریشس سے قدرے چھوٹا ہے، رودریگس کو اپنے اندرونی امور کے انتظام میں کچھ خود مختاری حاصل ہے،  فی الوقت مسلم آبادی تقریباً 250-300 خاندانوں پر مشتمل ہے، جب کہ کل آبادی 35,000 کے قریب ہے، جن میں سے زیادہ تر عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں،  پہلے صرف ایک مسجد پورٹ ماتھورین میں تھی،  جو رو د ریگس جزیرہ کا دار الحکومت سمجھا جاتا ہے، ان علاقوں میں جہاں مسلمان آباد ہوئے ہیں، وہاں مزید عبادت گاہوں کی تعمیر کی ضرورت محسوس کی گئی، تو اسی تناظر میں رودریگس اسلامک سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا؛ تا کہ مذہبی اور سماجی میدان میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوشش کی جاسکے، رو د ریگس اسلامک سوسائٹی 1992 میں اس نیت کے ساتھ قائم کی گئی تھی کہ مسلمانوں کے لیے نماز کی سہولت فراہم کی جاسکے اور ضرورت مند مسلمانوں اور رو دریگس کی عوام کی مدد کی جاسکے،  یہ بھی قابل ذکر ہے کہ مسلمان مذہب اختیار کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جن میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں، رودریگس اسلامک سوسائٹی نے اس تناظر میں سب سے پہلے لا فرم گاؤں میں ریاست کی زمین پرایک مصلی تعمیر کیا۔

ہم آپ کی توجہ اس بات کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ رو دریگس میں ذاتی زمین کمیاب ہے، زیادہ تر زمین حکومت کی ملکیت ہے  اور عوام کو لمبے عرصے کے لیے ریاست کی زمین کرائے پر لینے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے،  اس سلسلے میں رودریگس اسلامک سوسائٹی نے اس سہولت کے لیے درخواست دی ہے اور تین مقامات ( لا فرم، بے مالگاش اور انس اور آنگللے) پر تین مصلی تعمیر کرنے کے لیے  بیس (20) سال کی مدت کے لیے زمین لیز پر لی ہے،  اس ریاستی لیز کی خود بخود تجدید ہو جاتی ہے، فی الوقت جمعہ کی نماز پورٹ ما تھورین، لا فرم اور انس اور آنگللے میں ادا کی جاتی ہے،  دوبارہ ہم آپ کی توجہ اس امر پر مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ جب حکومت کسی فرد یا ایسوسی ایشن جیسے کہ رود ریگس اسلامک سوسائٹی کو لیز دیتی ہے، تو عمو ماًدہ اسے واپس نہیں لیتی،  ا گرچہ اسے قانو نا حق ہے۔

اس تناظر میں ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ کیا ہمارے مصلی، خاص طور پر لافرم اور انس اور آنگللے میں واقع، اگر چہ ذاتی زمین پر نہیں ہیں، انہیں شرعی مسجد قرار دینا صحیح ہو گا یا نہیں ؟ ریاست کی زمین لیز پر حاصل کیے بغیر ان علاقوں میں جائے نماز تعمیر کرناتقریباً ناممکن ہے،  یہاں پر پانچ وقت کی نمازیں اور جمعہ کی نماز ادا کی جاتی ہیں،  ہمارا سوال  یہ ہے کہ کیا ہم ان مصلوں کو شرعی مسجد قرار دے سکتے ہیں یا نہیں؟ اور وہاں رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ مروجہ  طویل مدت کے کرایہ کی زمین کو لیز سے  تعبیر کیاجاتا ہے اور قانون کی رو سے مروجہ لیز پر زمین لینے والے شخص کا قبضہ   چند شرائط کے ساتھ برقرار رکھا جاتا ہے اور جس مقصد کےلیے اس نے زمین لی ہو، اسی میں مکمل تصرف کا اختیار ہوتا ہے، البتہ لیز کی مدت مکمل ہونے کے بعد  اس زمین کی دوبارہ لیز کروانی پڑتی ہے، تو   جہاں لیز کے بغیر زمین  نہیں ملتی ہو وہاں مسجد کے لیے ایسی زمین لینا  اور اس پر مسجد بنانے کی شرعا  گنجائش ہوگی۔

 لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جزیرہ بحر ہندہ کے جزیہرہ رادریگس میں ریاست کی زمین لیز پر حاصل کیے بغیر ان علاقوں میں جائے نماز تعمیر کرناتقریباً ناممکن  ہو ، جب کہ  لیز(کرایہ) پر دی  جانے والی زمین کی مدت حکومت کی جانب سے بیس سال مقرر ہو اور مقررہ مدت کے بعد دوبارہ تجدید کی جاسکتی ہو، بایں طور پر کہ حکومت اس زمین کو واپس نہ لیتی ہو  (اگرچہ   حکومت کو قانونی طور پر زمین واپس لینے کا حق ہوتا ہو) ایسی صورت میں لیز پر لی گئی زمین پر جو نماز کی جگہ بنائی گئی  ہو  اور اس میں پانچ وقت کی نمازیں اور جمعہ کی نماز ادا کی جاتی ہو تو  اس کو مسجد کی حیثیت دینا درست ہو گا، چناں چہ مذکورہ  تینوں (لافرم، بے مالگاش اور انس اور آنگللے)  جگہوں کی ایسی  مساجد میں  باجماعت  نماز ادا کرنے کا ثواب ملے گااور اس پر شرعی مسجد والے احکام لاگو  ہوں گے اور ان  میں  اعتکاف کرنا  بھی جائز  ہے۔

 ملحوظ رہے کہ  مذکورہ لیز والا قانون(  کہ حکومت کی طرف سے  لیز کی مدت بیس سال مقرر ہے)ان جیسے ممالک میں وقف کے لیے مانع نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أن الحكم العام قد يثبت بالعرف الخاص عند بعض العلماء كالنسفي وغيره، ومنه ‌الأحكار ‌التي ‌جرت ‌بها ‌العادة في هذه الديار، وذلك بأن تمسح الأرض وتعرف بكسرها ويفرض على قدر من الأذرع مبلغ معين من الدراهم ويبقى الذي يبني فيها يؤدي ذلك القدر كل سنة من غير إجارة كما ذكره في أنفع الوسائل، فإذا كان بحيث لو رفعت عمارته لا تستأجر بأكثر تترك في يده بأجر المثل، ولكن لا ينبغي أن يفتي باعتبار العرف مطلقا خوفا من أن ينفتح باب القياس عليه في كثير من المنكرات والبدع، نعم يفتى به فيما دعت إليه الحاجة وجرت به في المدة المديدة العادة وتعارفه الأعيان بلا نكير كالخلو المتعارف في الحوانيت، وهو أن يجعل الواقف أو المتولي أو المالك على الحانوت قدرا معينا يؤخذ من الساكن ويعطيه به تمسكا شرعيا فلا يملك صاحب الحانوت بعد ذلك إخراج الساكن الذي له الخلو ولا إجارتها لغيره، ما لم يدفع له المبلغ المرقوم فيفتى بجواز ذلك قياسا على بيع الوفاء الذي تعارفه المتأخرون احتيالا عن الربا، حتى قال في مجموع النوازل: اتفق مشايخنا في هذا الزمان على صحته بيعا لاضطرار الناس إلى ذلك.ومن القواعد الكلية: إذا ضاق الأمر اتسع حكمه، فيندرج تحتها أمثال ذلك مما دعت إليه الضرورة، والله أعلم اهـ ملخصا".

(كتاب الإجارة، ج:6، ص:26، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"(قوله: وشرطه شرط سائر التبرعات) أفاد أن الواقف لا بد أن يكون مالكه وقت الوقف ملكا باتا ولو بسبب فاسد".

(كتاب الوقف، ج:4، ص:340، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"ذكر في البحر أن مفاد كلام الحاوي اشتراط كون أرض المسجد ملكا للباني اهـ لكن ذكر الطرسوسي جوازه على الأرض المستأجرة أخذا من جواز وقف البناء، كما سنذكره هناك، وسئل في الخيرية عمن جعل بيت شعر مسجدا فأفتى بأنه لا يصح".

(كتاب الوقف، ج:4، ص:356، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه)  بجماعة وقيل: يكفي واحد وجعله في الخانية ظاهر الرواية".

"(قوله: والمصلى) شمل مصلى الجنازة ومصلى العيد قال بعضهم: يكون مسجدا حتى إذا مات لا يورث عنه وقال بعضهم: هذا في مصلى الجنازة، أما مصلى العيد لا يكون مسجدا مطلقا، وإنما يعطى له حكم المسجد في صحة الاقتداء بالإمام، وإن كان منفصلا عن الصفوف وفيما سوى ذلك فليس له حكم المسجد، وقال بعضهم: يكون مسجدا حال أداء الصلاة لا غير وهو والجبانة سواء، ويجنب هذا المكان عما يجنب عنه المساجد احتياطا. اهـ. خانية وإسعاف والظاهر ترجيح الأول؛ لأنه في الخانية يقدم الأشهر (قوله بالفعل) أي بالصلاة فيه ففي شرح الملتقى إنه يصير مسجدا بلا خلاف، ثم قال عند قول الملتقى، وعند أبي يوسف يزول بمجرد القول ولم يرد أنه لا يزول بدونه لما عرفت أنه يزول بالفعل أيضا بلا خلاف اهـ.".

(كتاب الوقف، ج:4، ص:356، ط: سعيد)

فتح القدیر میں ہے:

"ثم بين أن ‌ركنه ‌اللبث بشرط الصوم والنية، وكذا المسجد من الشروط أي كونه فيه".

(كتاب الصوم، باب الاعتكاف، ج:2، ص:390، ط: دار الفكر)

جواہر الفقہ میں ہے:

”اصل ضابطہ شرعیہ اس بارہ میں یہ ہے کہ ہر ایک اجارہ مدت اجارہ ختم ہونے پر یا احد المتعاقدین ( کرایہ دار یا زمیندار ) کی موت سے ختم ہو جاتا ہے، پھر کرایہ دار کو قبضہ باقی رکھنے کا کوئی حق نہیں رہتا۔ ( کما ھو مصرح في عامة المتون والشروح و الفتاوی ( اور اسی بناء پر موروثی کاشتکاری اور دخیل کاری کا جو عام قانون اس وقت رائج ہے، وہ اپنے عموم کی حیثیت سے بلا شبہ ظلم اور نا جائز ہے، لیکن فقہائے متاخرین کے کلام سے بعض صورتیں ایسی بھی معلوم ہوتی ہیں، کہ جس میں مستاجر ( کاشتکار یا کرایہ دار ) کا قبضہ چند شرائط کے ساتھ دائی نسلاً بعد نسل قرار دیا جاتا ہے، اور جب تک وہ شرائط کا پابند رہے، اس کا قبضہ زمیندار کو اٹھانے کا حق نہیں ہوتا ، کرایہ دار یا زمیندار میں سے کسی کا انتقال بھی اس معاملہ میں اجارہ کو فسخ نہیں کرتا ، بلکہ نسلاً بعد نسل یہ معاملہ جاری رہتا ہے، اور وہ صورت یہ ہے کہ جو زمین یا مکان اجارہ پر دیا گیا ہے، وہ ابتدائے معاملہ ہی سے بطور پہ دوامی دیا گیا ہو ، اور کاشتکار یا کرایہ دار کو یہ یقین دلایا گیا ہو کہ یہ جائداد اس کے قبضہ سے نکالی نہ جائے گی، جس کی بناء پر کاشتکار نے اپنا رو پید اور محنت صرف کر کے زمین کو ہموار کیا، اور کنواں وغیرہ بنایا یا کرایہ دار نے اس میں کوئی تعمیر وغیرہ قائم کر لی ، ایسی جائداد کو فقہاء کی اصطلاح میں ارض محتکرہ اور کردار یا جدک کہتے ہیں، اور اس دائمی حق کو مشد مسکہ یا حق قرار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ (کمانی رد المختار ) اور یہ صورت یا اوقاف کی زمین میں ہو سکتی ہے، یا بیت المال کی یا ایسی زمین میں جس کو مالک نے کرایہ ہی کی جائداد قرار دے کر پٹہ دوامی لکھ دیا ہے، یا کرایہ دار کو عدم انتقال کا یقین دلایا ہے، جس کی بناء پر اس نے اس زمین کو اپنا روپیہ اور محنت صرف کر کے درست کیا ہے، اس صورت میں شرعاً بھی کاشتکار یا کرایہ دار کا قبضہ اس وقت تک نہ اٹھایا جائے گا ، جب تک کہ وہ شرائط ذیل کی پابندی کرے۔ "

(قانون اسلامی بابت پٹہ دوامی، جلد پنجم، صفحہ:18/19/20، ط:  مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144607101257

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں