شاہ لطیف ٹاؤن حکومتِ وقت کی جانب سے ایک منظور شدہ ٹاؤن ہے، بالخصوص کراچی کے KDA کی الاٹ منٹ موجود ہے، انہوں نے ہر سیکٹر میں ایک مسجد کی جگہ اور پارک اور اسکول کی جگہ رکھی ہے، تو مسجد کی جگہ پر قانون کے مطابق تمام دستاویزات قانونی طور پر مکمل کرنے کے بعد مسجد کی تعمیر کرتے ہیں، اس میں ایک حصے میں ایک مدرسہ بھی بنتا ہے، اور ایک حصے میں مسجد، اور مسجد کا حصہ بڑا وسیع اور کشادہ ہوتا ہے، چھوٹی سی جگہ بچ جاتی ہے، اس میں مسجد کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے دکانیں تعمیر کی جاتی ہیں، کیوں کہ اس پر فتن دور میں مسجد کے اخراجات مکمل کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے، ایسا کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
مسجد اور مصالحِ مسجد کے لیے مختص کی گئی جگہ پر اگر مسجد کی تعمیر سے پہلے کچھ حصے پر دکانیں بنا دی جائیں؛ تا کہ ان کی آمدنی مسجد پر خرچ کی جائے تو اس کی گنجائش ہے، دکانیں بنا کر اس کی آمدنی مسجد پر خرچ کی جا سکتی ہے، لیکن اگر اس پلاٹ کے کسی حصے کو نماز کے لیے مختص کر دیا گیا ہو تو اس کے بعد اس حصے پر دکانوں کی تعمیر جائز نہیں ہو گی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
«قيم المسجد لا يجوز له أن يبني حوانيت في حد المسجد أو في فنائه؛ لأن المسجد إذا جعل حانوتا ومسكنا تسقط حرمته وهذا لا يجوز، والفناء تبع المسجد فيكون حكمه حكم المسجد، كذا في محيط السرخسي»
(کتاب الوقف، الفصل الثاني في الوقف وتصرف القيم وغيره في مال الوقف عليه، 462/2/رشیدیہ)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وإذا جعل تحته سردابا لمصالحه) أي المسجد (جاز)
(قوله: وإذا جعل تحته سردابا) جمعه سراديب، بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره كذا في الفتح وشرط في المصباح أن يكون ضيقا نهر۔"
(کتاب الوقف، 357/4/ سعید)
فتاوی خانیہ میں ہے:
"قال الفقیه أبو جعفر: إذا لم یذکر الواقف في صک الوقف إجارة الوقف، فرأی القیم أن یواجرها ویدفعها مزارعةً، فما کان أدر علی الوقف وأنفع للفقراء فعل."
(خانیه 332/3، ط: زکریا)
امداد الاحکام میں ہے:
سوال: مسجد یست کہ بطرف گوشہ مغرب و شمال اد یک قطعہ وقف علی المسجد متصل دیوار افتادہ است کہ نمازیان بعض وقت بول می کنند، حالاً شخصے می خواہد کہ در آن قطعہ خانہ یا دکان ساز دو کرایہ آں در غلہ مسجد داخل نماید کہ در عمارت مسجد بکار آید، آیا چنیں طور کردن جائز است یا نہ؟
جواب: ایں فعل جائز است اگر خلافِ غرض واقف نہ باشد والا اتباع غرض واقف لازم بود۔
(احکام المساجد، صفحہ نمبر 274، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144306100186
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن