بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1446ھ 16 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مسجد کا بیرونی لاؤڈ اسپیکر اذان کے علاوہ درس و تقریر کے لیے استعمال کرنا


سوال

مسجد کا بیرونی لاؤڈ اسپیکر اذان کے علاوہ درس و تقریر کے لیے استعمال ہوسکتا ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ مسجد کابیرونی  لاؤڈ اسپیکر اذان کے علاوہ درس و تقریر اور وعظ و بیان کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ یہ استعمال ضرورت سے زائد اور دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث نہ ہو۔لہذا درس و تقریرکے سامعین اگرمحدود ہوں اور مسجد کے اندر ہی ہوں  تو آواز کو سامعین کی حدتک محدود رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اِس کے لیے مسجد کا اندرونی اسپیکر ہی استعمال کرنا چاہیے، مسجد کے بیرونی لاؤڈاسپیکر کا بےتحاشااستعمال  جس کی وجہ سے محلے کے کسی مریض کے آرام میں،عبادت کرنے والے کی عبادت میں، سونے والے کے آرام میں    یا کوئی بھی نجی عمل کرنے والے کے عمل میں خلل واقع ہو اور دوسروں کے لیے ایذاء  کا باعث ہو یہ  طریقہ  عقلاً و شرعاً بالكل بھی درست نہیں ہے۔ نیزمسجد کےاندرونی لاؤڈ اسپیکر پر بھی ضرورت سے زیادہ بلند آواز کرنا کہ جو سامعین کے علاوہ دیگر نمازی حضرات یا تلاوت کرنے والے حضرات کے لیے پریشانی کا باعث بنے، اِس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

آپ كے مسائل اُن كا حل میں ہے:

"سوال : لاؤڈ اسپیکر میں جو نمازِ تراویح بوجہ ضرورت پڑھی جاتی ہے، اُس میں کیا کوئی کراہت ہے؟

جواب: ضرورت کی بناء پر ہو تو کوئی کراہت نہیں، لیکن ضرورت کی چیز بقدرِ ضرورت ہی اختیار کی جاتی ہے، لہذا لاؤڈ اسپیکر کی آواز مسجد تک محدود رہنی چاہیے، تراویح میں اوپر کے اسپیکر کھول دینا، جس سے پورے محلے کا سکون غارت ہوجائے ، جائز نہیں۔"

(کتاب الصلوۃ، تراویح، ج:۲، ص:۱۹۷،ط:مکتبہ لدھیانوی)

وفیہ ایضا:

"لاؤڈاسپیکر کا استعمال ضرورت ہے، شوق کی چیز نہیں، لاؤڈ اسپیکر کی آواز اتنی ہونی چاہیے، جس سے بلاوجہ لوگوں کو ایذا نہ ہو۔"

(کتاب الصلاۃ، مسجد کے مسائل، ج:۳، ص:۲۶۳، ط: مکتبہ لدھیانوی)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"نيزاگرلاؤڈاسپیکرکاانتظام غائبین کے لیے ہے، تووہ بےچارے کچھ اپنی نماز ،تلاوت،وظیفہ میں مشغول ہوں گے مگراس آوازکی وجہ سے اپنی یہ چیزیں پوری نہیں کرسکیں گےاوران پریہ پابندی عائد کرنا کہ وہ سب اپنی طاعات کوچھوڑ کر اس کے سننے کی طرف متوجہ رہیں، یہ بھی زیادتی ہے،کچھ لوگ سوتے ہوں گے، یااپنے دینی کاموں میں مشغول ہوں گے ،ان کوپابند کرنا بھی مشکل ہے،غرض! ایسی صورت اختیار نہ کی جائے جو سلف صالحین کے خلاف ہو۔"

(کتاب الصلاۃ، باب التراویح، ج:۷، ص:۳۳۳، ط:ادارۃ الفاروق)

البحر الرائق میں ہے:

"الإمام إذا جهر ‌فوق ‌حاجة ‌الناس فقد أساء، وأفاد أنه لا فرق في حق الإمام بين الأداء والقضاء؛ لأن القضاء يحكي الأداء، وألحق بالجمعة والعيدين التراويح والوتر في رمضان للتوارث المنقول."

(كتاب الصلاة، باب آداب الصلاة، ج:1، ص:دارالكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"أجمع العلماء سلفاً وخلفاً علی استحباب ذکر الجماعة في المساجد وغیرها إلا أن یشوش جهرهم علی نائم أو مصل أو قارئ".

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، 660/1، ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"وفي الفتح عن الخلاصة: ‌رجل ‌يكتب ‌الفقه ‌وبجنبه ‌رجل يقرأ القرآن فلا يمكنه استماع القرآن فالإثم على القارئ وعلى هذا لو قرأ على السطح والناس نيام يأثم اهـ أي لأنه يكون سببا لإعراضهم عن استماعه، أو لأنه يؤذيهم بإيقاظهم".

(كتاب الصلاة، فصل في القراءة، 546/1، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144609101776

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں