ایک مسجد کے متولی کے پاس کچھ رقم ہے اور کچھ لوگ اس متولی سے یہ رقم بطور قرض مانگ رہے ہیں ،اب آیا کہ مسجد کی رقم ان لوگوں کو بطور قرض دینا جائز ہے یا نہیں ؟
واضح رہے کہ مسجد کی رقم متولی کے پاس امانت ہوتی ہے، اور اس رقم میں تصرف کرنا یا اس کو بدلنا خیانت کے زمرے میں آتاہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں متولی کے لئے مسجد کی رقم کو بطورِ قرض کسی کو دینا جائز نہیں ہے۔
العناية شرح الهداية میں ہے:
"والأصل فيه أن الشرط إذا كان مفيدا والعمل به ممكنا وجب مراعاته والمخالفة فيه توجب الضمان."
(كتاب الوديعة، ج:8، ص:494، ط:دارالفكر)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني.
الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن، وإن فعل شيئا منها ضمن، كذا في البحر الرائق."
(كتاب الوديعة، الباب الأول في تفسير الإيداع والوديعة وركنها وشرائطها وحكمها، ج:4، ص:338، ط: دار الفکر)
البحرالرائق میں ہے:
"ليس للمتولي إيداع مال الوقف والمسجد إلا ممن في عياله ولا إقراضه فلو أقرضه ضمن وكذا المستقرض وذكر أن القيم لو أقرض مال المسجد ليأخذه عند الحاجة وهو أحرز من إمساكه فلا بأس به وفي العدة يسع المتولي إقراض ما فضل من غلة الوقف لو أحرز."
(كتاب الوقف، تصرفات الناظر في الوقف، ج:5، ص:259، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اَعلم
فتوی نمبر : 144607100419
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن