بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے لیے چندہ کرکے مسجد میں خرچ کرنے کا کیا حکم ہے؟


سوال

مکتب کے لیے چندہ کرکے مسجد میں خرچ کرنے کا حکم کیا ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ لوگوں سے مدرسہ کے نام پر چندہ جمع کرکے لوگوں کی اجازت کے بغیر مسجد کے مصارف میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ لوگوں کے مال میں خیانت ہے، اس سے احتیاط لازم ہے، اور اگر کرلیے ہوں تو اتنے پیسے مدرسے کے فنڈ میں جمع کرانا لازم ہے۔

ہاں اگر مسجد ومکتب کی انتظامی کمیٹی ایک ہی ہو، اور ان کے قواعد وضوابط میں یہ طے ہو کہ مسجد ومکتب دونوں کے مصارف، مشترکہ آمدن سے ادا کیے جائیں گے، اور چندہ دینے والوں کو بھی اس اصول یا تعامل کا علم ہو، نیز چندہ میں آمدہ رقم کی مدات کا لحاظ بھی ہو، تو پھر مسجد کے نام سے آنے والی چندہ کی رقم مکتب میں بھی خرچ کی جاسکتی ہے۔

الدر المختار  میں ہے:

"(اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه) بسبب خراب وقف أحدهما (جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه) لأنهما حينئذ كشيء واحد.

 (وإن اختلف أحدهما) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا (لا) يجوز له ذلك."

(کتاب الوقف، ج: ٤، ص: ٣٦٠، ط: سعید)

البحر الرائق  میں ہے:

"السادسة عشرة : في البزازية : وقد تقرر في فتاوى خوارزم أن الواقف ومحل الوقف أعني الجهة إن اتحدت بأن كان وقفا على المسجد أحدهما إلى العمارة والآخر إلى إمامه أو مؤذنه والإمام والمؤذن لا يستقر لقلة المرسوم للحاكم الدين أن يصرف من فاضل وقف المصالح والعمارة إلى الإمام والمؤذن باستصواب أهل الصلاح من أهل المحلة إن كان الواقف متحدا لأن غرض الواقف إحياء وقفه وذلك يحصل بما قلنا أما إذا اختلف ‌الواقف أو اتحد ‌الواقف واختلفت الجهة بأن بنى مدرسة ومسجدا وعين لكل وقفا وفضل من غلة أحدهما لا يبدل شرط ‌الواقف. وكذا إذا اختلف ‌الواقف لا الجهة يتبع شرط ‌الواقف وقد علم بهذا التقرير إعمال الغلتين إحياء للوقف ورعاية لشرط ‌الواقف هذا هو الحاصل من الفتاوى. اهـ. وقد علم منه أنه لا يجوز لمتولي الشيخونية بالقاهرة صرف أحد الوقفين للآخر."

(كتاب الوقف، ج: ٥، ص: ٢٣٤، ط: دار الكتاب الإسلامي)

الجوهرة النيرة  میں ہے:

"لا يجوز للوكيل أن يتصرف ‌إلا ‌فيما ‌جعل ‌إليه."

(کتاب آداب القاضي، ج: ٢، ص: ٢٤٥، ط: المطعبة الخيرية)

الفتاوي الهندية  میں ہے:

"لو أنفق دراهم الوقف في حاجته ثم أنفق مثلها في مرمة الوقف يبرأ عن الضمان."

(کتاب الوقف، الباب الخامس، ج: ٢، ص: ٤١٦، ط: رشيدية)

الفقه الإسلامي وأدلته  میں ہے:

"وإذا وقف ‌الواقف وقفين على المسجد، أحدهما على العمارة، والآخر إلى إمامه أو مؤذنه، فللحاكم إذا قل المخصص للإمام ونحوه أن يصرف من فاضل وقف المصالح والعمارة إلى الإمام والمؤذن باستصواب أهل الصلاح من أهل المحلة، إن كان الوقف متحدا؛ لأن غرضه إحياء وقفه، وهو يحصل بهذا النقل؛ لأنهما حينئذ كشيء واحد. ففي حال اتحاد ‌الواقف ‌والجهة يجوز المناقلة.

وإن اختلف أحدهما (‌الواقف ‌والجهة) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدا ومدرسة، ووقف عليهما أوقافا، لا يجوز للحاكم نقل مخصص أحدهما للآخر."

(القسم السادس، الباب الخامس، الفصل الثامن، ج: ١٠، ص: ٧٦٧٤، ط: دار الفکر، بیروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144605100055

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں