مسجد کا متولی خود امام مسجد ہے، کیا یہ متولی مسجد کے فنڈ سے امام مسجد کے کمرے میں استعمال کے لئے صابن خرید سکتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مسجد کے امام صاحب اگرچہ متولی ہیں، لیکن مسجد کے فنڈ کو اپنی صوابدید پر استعمال کرنا درست نہیں ہے، بلکہ اسے مسجد و مصالحِ مسجد میں دیانت کے ساتھ خرچ کرنا ضروری ہے، امام صاحب مسجد کے فنڈ سے اپنے لیے ضابطے کے مطابق معروف تنخواہ وصول کر سکتے ہیں، اس کے بعد اپنے کمرے یا گھر کی دیگر روزمرہ کی ضروریات اسی تنخواہ سے پوری کریں، مسجد کے فنڈ کو استعمال نہ کریں۔
البحر الرائق میں ہے:
"وفي القنية ولا يجوز للقيم شراء شيء من مال المسجد لنفسه ولا البيع له وإن كان فيه منفعة ظاهرة للمسجد. اهـ."
(كتاب الوقف، تصرفات الناظر في الوقف، ج:5، ص:259، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويبدأ من غلته بعمارته) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح وتمامه في البحر....(قوله: ثم ما هو أقرب لعمارته إلخ) أي فإن انتهت عمارته وفضل من الغلة شيء يبدأ بما هو أقرب للعمارة وهو عمارته المعنوية التي هي قيام شعائره قال في الحاوي القدسي: والذي يبدأ به من ارتفاع الوقف أي من غلته عمارته شرط الواقف أولا ثم ما هو أقرب إلى العمارة، وأعم للمصلحةكالإمام للمسجد، والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم."
(كتاب الوقف، مطلب يبدأ بعد العمارة بما هو أقرب إليها، ج:4، ص:366، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607102989
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن