بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی توسیع کرنے کی صورت میں پرانی مسجد کو کسی اور کام میں استعمال کرنے کا حکم


سوال

گاؤں  میں مسجد  کی توسیع  کی جارہی ہے  اور   جو  ابھی جدید مسجد بنی ہے  اس کو   مرکزی صحن بنایا جا رہا ہے، جہاں امام نماز کے لیے کھڑے ہوں  گے اور پرانی مسجد جہاں پہلے نماز ہو رہی تھی اس کو مسجد کا خارجی جگہ بنایا جائے گا یا مکتب کی شکل دی جائے گی۔ تو  کیا  ایسا  کرنا  درست  ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جو  جگہ ایک دفعہ  شرعی مسجد کی حدود میں داخل ہوجائے وہ جگہ ہمیشہ کے لیے زمین کی تہہ  سے لے کر  آسمان تک سب مسجد کے حکم میں ہو تی ہے،نہ وہاں کوئی اور چیز تعمیر کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس جگہ کو مسجد کے علاوہ کسی اور کام میں استعمال کیا جاسکتا ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ  اوّلًا تو کوشش کرنی چاہیے کہ قدیم مسجد کی جگہ بھی جدید مسجد میں شامل ہو اور اس میں بھی نماز ادا کی جاتی رہے، تاہم اگر نئی تعمیر کے بعد، پرانی مسجد والی جگہ  کی فی الحال ضرورت نہ بھی ہو ، تب بھی اس جگہ کو مسجد سے خارج نہیں کیا جاسکتا ہے،بلکہ اس جگہ پر مسجد کے تمام احکامات لاگو ہیں؛ لہذا مسجد کی اس پرانی جگہ کو  مسجد کے لیے ہی مختص کرنا لازم ہے اور   اگر پرانی مسجد والی جگہ  میں عارضی مکتب قائم کیا جائے،تو بھی وہ جگہ مسجد ہی کے حکم میں ہوگی ،اور مسجد کے تمام آداب و تقدس کا خیا ل رکھتے ہوئے ،اگر وہاں بچے اور  چھوٹی  بچیوں کو قرآن  اور  دین کی بنیادی تعلیم دی جائےتو  یہ جائز ہے، لڑکیوں/ خواتین کا مدرسہ  قائم کرنا درست نہیں ہوگا۔

"البحر الرائق" میں ہے:

"وحاصله أن ‌شرط ‌كونه ‌مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفا لمصالح المسجد فإنه يجوز إذ لا ملك فيه لأحد بل هو من تتميم مصالح المسجد فهو كسرداب مسجد بيت المقدس هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتا على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لا يضر في كونه مسجدا لأنه منالمصالح ،فإن قلت: لو جعل مسجدا ثم أراد أن يبني فوقه بيتا للإمام أو غيره هل له ذلك قلت: قال في التتارخانية إذا بنى مسجدا وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا يتركه وفي جامع الفتوى إذا قال عنيت ذلك فإنه لا يصدق. اهـ. فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره."

(كتاب الوقف، ج:5، ص:271، ط:دار الكتاب الإسلامي) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو ‌خرب ‌ما ‌حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي) حاوي القدسي."

(كتاب الوقف، ج:4، ص:358، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101219

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں