مسجد ميں ، مسجد كی نماز باجماعت كے دوران (مسجد كی نماز باجماعت سے روك كر ) مدرسہ كا امتحان لينے اور جاری رکھنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ مثال کے طور پر اگر امتحان کا وقت شام سات بجے سے رات دس بجے مقرر کیا گیا ہے اور مسجد میں عشاء کی نماز باجماعت سوا نو بجے ہے۔ اس میں طلباء کو باقاعدہ امتحان شروع ہونے سے پہلے اعلان کرکے مسجد میں نمازِ عشاء باجماعت میں شرکت کی اجازت نہ دینا اور امتحان کے بعد نماز ِ عشاء کی ادائیگی کے لیے جماعت ثانیہ کی ہدایت کرنا کیسا ہے؟
نوٹ: مسجد اور مدرسہ محلہ کا ہے اور کسی ادارے کے تحت نہیں ہے، امتحان مسجد کی پہلی منزل کے ہال میں منعقد ہوا ہے اور نماز باجماعت مسجد کے گراؤنڈ فلور کے ہال میں ادا ہوتی ہے۔
نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں جاکر ادا کرنا حکم کے اعتبار سے واجب کے قریب ہے، حدیث مبارکہ میں ہے : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺارشاد فرماتے ہیں کہ:” میرا دل چاہتا ہے کہ چند جوانوں سے کہوں کہ بہت سا ایندھن اکٹھا کرکے لائیں، پھر میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو بلاعذر گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں اور جا کران کے گھروں کو جلادوں“، کسی معقول اور شرعی عذر کے بغیر مسجد کی جماعت کو ترک کرنا درست نہیں بالخصوص مسجد میں موجود ہوتے ہوئے مسجد کی جماعت میں شرکت کے بجائے بعد میں اپنی جماعت کرنا تو اور زیادہ بُرا ہے، نیز ایسی مسجد جس میں امام، مؤذن مقرر ہوں اور نمازی معلوم ہوں، نیز جماعت کے اوقات بھی متعین ہوں اور وہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوتی ہو تو ایسی مسجد میں ایک مرتبہ اذان اور اقامت کے ساتھ محلے والوں/ اہلِ مسجد کے جماعت کے ساتھ نماز ادا کرلینے کے بعد دوبارہ نماز کے لیے جماعت کرانا مکروہِ تحریمی ہے۔
صورت مسئولہ میں مذکورہ مدرسہ کے طلباء اگر بالغ ہیں تو مسجد کی بالائی منزل میں ان کے امتحان جاری ہونے کی بنا پر ان کو مسجد کی جماعت میں شرکت کرنے سے روکنا اور امتحان کے بعد اپنی جماعت کرانا جائز نہیں ہے، اور بعد میں مسجد کی حدود میں ان کی دوسری جماعت کرانا بھی مکروہ تحریمی ہے، یہ جماعت کو ترک کرنے کا شرعی عذر نہیں ہے، البتہ اگر طلباء نابالغ ہوں تو گنجائش ہوگی ، لیکن بہتر یہی ہے کہ امتحان کا وقت ایسا رکھا جائے جس میں نماز باجماعت کا وقت نہ آئے۔
حدیث مبارک میں ہے :
"عن أبي الأحوص. قال: قال عبد الله:لقد رأيتنا وما يتخلف عن الصلاة إلا منافق قد علم نفاقه. أو مريض. إن كان المريض ليمشي بين رجلين حتى يأتي الصلاة. وقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم علمنا سنن الهدى. وإن من سنن الهدى الصلاة في المسجد الذي يؤذن فيه."
(صحیح مسلم ،باب صلاۃ الجماعة من سنن الهدی، 1/ 453، ط: داراحیاءالتراث العربی)
فتاوی شامی میں ہے:
"ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.
(قوله: ويكره) أي تحريماً؛ لقول الكافي: لايجوز، والمجمع: لايباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي، (قوله: بأذان وإقامة إلخ) عبارته في الخزائن: أجمع مما هنا ونصها: يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة بأذان وإقامة، إلا إذا صلى بهما فيه أولا غير أهله، لو أهله لكن بمخافتة الأذان، ولو كرر أهله بدونهما أو كان مسجد طريق جاز إجماعا؛ كما في مسجد ليس له إمام ولا مؤذن ويصلي الناس فيه فوجا فوجا، فإن الأفضل أن يصلي كل فريق بأذان وإقامة على حدة كما في أمالي قاضي خان اهـ ونحوه في الدرر. والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون، كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعاً. اهـ".
(كتاب الصلاة، باب الإمامة، 1/ 552، ط:سعيد)
وفيہ أیضاً :
"(فتسن أو تجب) ثمرته تظهر في الإثم بتركها مرة (على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج).
(قوله: من غير حرج) قيد لكونها سنة مؤكدة أو واجبة، فبالحرج يرتفع الإثم ويرخص في تركها ولكنه يفوته الأفضل بدليل «أنه - عليه الصلاة والسلام - قال لابن أم مكتوم الأعمى لما استأذنه في الصلاة في بيته: ما أجد لك رخصة» قال في الفتح: أي تحصل لك فضيلة الجماعة من غير حضورها لا الإيجاب على الأعمى، «لأنه - عليه الصلاة والسلام - رخص لعتبان بن مالك في تركها» اهـ لكن في نور الإيضاح: وإذا انقطع عن الجماعة لعذر من أعذارها وكانت نيته حضورها لولا العذر يحصل له ثوابها اهـ والظاهر أن المراد به العذر المانع كالمرض والشيخوخة والفلج، بخلاف نحو المطر والطين والبرد والعمى تأمل (قوله ولو فاتته ندب طلبها) فلا يجب عليه الطلب في المساجد بلا خلاف بين أصحابنا، بل إن أتى مسجدا للجماعة آخر فحسن، وإن صلى في مسجد حيه منفردا فحسن. وذكر القدوري: يجمع بأهله ويصلي بهم، يعني وينال ثواب الجماعة كذا في الفتح."
(کتاب الصلاۃ،باب الامامة، 1/ 555، ط: سعید)
مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے :
"وفي المفيد: أنها واجبة وتسميتها سنة لوجوبها بالسنة؛ لكن إن فاتته جماعة لا يجب عليه الطلب في مسجد آخر كما في أكثر الكتب.وفي الجوهرة: لو صلى في بيته بزوجته أو ولده فقد أتى بفضيلة الجماعة."
(کتاب الصلاۃ،فصل الجماعة سنة موکدۃ، 1/ 107، ط: داراحیاءالتراث العربی)
فتح القدير لابن الهمام ميں ہے :
"وسئل الحلواني عمن يجمع بأهله أحيانا هل ينال ثواب الجماعة؟ فقال: لا، ويكون بدعة ومكروها بلا عذر."
(کتاب الصلاۃ،باب الامامة،1/ 345، ط:دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102863
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن