بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی رقم مکتب میں لگانا


سوال

ایک مسجد کی رقم جمع ہے، کیا مسجد کی اس رقم کو مکتب میں لگانا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں اگر مسجد اور مکتب کا نظم مستقل طور پر جدا ہو  اور تعاون کرنے والے لوگ مسجد اور مکتب میں سے ہرایک کے فنڈ کو مستقل سمجھ کر جداگانہ تعاون کرتے ہوں تو اس صورت میں جو رقم مسجد کے نام سے جمع کی ہے، وہ  رقم اس مسجد کے علاوہ  مکتب کی ضروریات  میں لگانا جائز نہیں ہے، بلکہ  ضروری ہے کہ وہ رقم اسی مسجد کی ضروریات میں خرچ کی جائے۔ البتہ  اگر چندہ دہندگان سے  پیشگی اجازت لے لی جائے  کہ یہ تعاون مسجد اور مکتب دونوں کے لیے ہے تو پھر یہ رقم مکتب کی ضروریات میں بھی  لگائی جاسکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال الخير الرملي: أقول: ومن اختلاف الجهة ما إذا كان الوقف منزلين أحدهما للسكنى والآخر للاستغلال فلا يصرف أحدهما للآخر وهي واقعة الفتوى. اهـ."

( کتاب الوقف ، مطلب في نقل انقاض المسجد ونحوہ، ج: 4/ صفحہ: 361/ ایچ، ایم، سعید)

وفیہ ایضا:

"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة، وصرح الأصوليون بأن العرف يصلح مخصصًا."

(کتاب الوقف، مطلب مراعاۃ غرض الواقفین۔۔۔( ج: 4/ صفحہ: 445/ ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں