بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی تعمیر میں عشر کی رقم لگانے کا حکم


سوال

 عرض یہ ہے کہ ہمارے گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد ہے ، جس میں گاؤں والے نماز پڑھتے ہیں، مسجد بھی جھونپڑی کی شکل میں ہے ،روزانہ کی بنیاد پر ناظرہ قرآن مجید بھی پڑھایا جاتاہے ، ساتھ ساتھ رمضان میں تکمیلِ قرآن بھی ہوتا ہےاور یہاں کے جو لوگ ہیں  وہ بھی ان ہی جھونپڑیوں میں وقت گزارتے ہیں، کبھی کبھار دوڑ اور طوفان میں مسجد ویران بھی ہوجاتی ہے ،تو کیا اس صورت میں مسجد کی بنیاد اور ترقی  کے لیے عُشر اکٹھا کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ عشر کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ   کا مصرف ہے، یعنی جو  شخص غریب اور ضروت مند ہو  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد   ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  رقم نہیں ہے، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ اور عشر لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ اور عشر دینے سے زکاۃ اور عشر ادا ہوجائے گا۔

عشر کی رقم براہِ راست کسی چیز کی تعمیر میں خرچ کرنا درست نہیں؛  لہذا  صورتِ مسئولہ میں مسجد کی بنیاد اور ترقی کے کام میں   عشر کی رقم  لگانا جائز نہیں ہے۔

فتاوی ٰ شامی میں ہے :

"باب المصرف

أي مصرف الزكاة والعشر وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم ( هو فقير وهو من له أدنى شيء ) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير تام مستغرق في الحاجة (ومسكين من شيء له ) على المذهب؛ لقوله تعالى: { أو مسكيناً ذا متربة } [البلد 13] وآية السفينة للترحم ( وعامل ) يعم الساعي والعاشر ( فيعطي ) ولو غنياً لا هاشمياً؛ لأنه فرغ نفسه لهذا العمل فيحتاج إلى الكفاية والغني لايمنع من تناولها عند الحاجة كابن السبيل."

(كتاب الزكاة، باب العشر، ج:2، ص:339، ط:دار الفكر۔بيروت)

وفیه أیضاً :

"( من مسلم فقير ) ولو معتوهاً ( غير هاشمي ولا مولاه ) أي معتقه، وهذا معنى قول الكنز: تمليك المال أي المعهود إخراجه شرعاً ( من قطع المنفعة عن الملك من كل وجه )."

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:258، ط:دار الفكر۔بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102599

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں