ہمارے گاؤں کی مسجد کے سامنے صحن ہے، اس میں 103 سال پرانی قبریں ہیں، جن میں ایک میرے چاچا اور ایک میرے دادا کی بھی ہے اور دیگر لوگوں کے عزیز واقارب کی بھی ہیں، کل چار قبریں ہیں، اب مسجد کا صحن نمازیوں کی تعداد کے حساب سے کم پڑ رہا ہے تو تجویز آئی ہے کہ ان قبروں کو منتقل کرکے مسجد کے صحن کو کشادہ کرلیں، اس بارے میں ، میں نے اپنے دونوں اقارب کی قبریں ہٹانے کی اجازت دے دی ہے اور دیگر سے اجازت مانگی جارہی ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ ہمیں فتویٰ کے ذریعے راہ نمائی فرمائیں کہ قبریں ہٹاکر وہ جگہ مسجد میں شامل کرکے نماز ادا کی جاسکتی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مسجد کی توسیع کی ضرورت ہے اور مسجد کے صحن کے سامنے 103 سال پرانیں قبریں ہیں ،اور اس میں موجود میتوں کے بارے میں غالب گمان یہی ہے وہ بوسیدہ اور مٹی ہوچکی ہیں تو اگر وہ زمین مملوکہ ہو تو زمین کے مالک کی اجازت سے قبروں کو برابر کرکے مسجد کے صحن کی توسیع اور اس جگہ کو مسجد میں شامل کرنا جائز ہے ۔
اور اگر یہ زمین قبرستان کے لیے وقف ہو ، لیکن قبریں بوسیدہ اور مٹی ہوچکی ہوں اور آئندہ اس میں تدفین کی ضرورت نہ ہو اور مسجد کو توسیع کی ضرورت بھی ہو تو اس صورت میں بھی اس جگہ کو مسجد کی توسیع میں شامل کیا جاسکتا ہے، اگر کھدائی کے دوران بوسیدہ ہڈیاں وغیرہ نکلیں تو ان کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں کسی اور جگہ دفنا دیا جائے۔
فتاوٰی شامی میں ہے:
"وقال الزيلعي: و لو بلي الميت وصار ترابًا جاز دفن غيره في قبره وزرعه و البناء عليه اهـ. قال في الإمداد: و يخالفه ما في التتارخانية: إذا صار الميت ترابًا في القبر يكره دفن غيره في قبره؛ لأنّ الحرمة باقية."
(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، 2/ 233، ط: سعید)
عمدة القاري میں ہے:
"فإن قلت: هل يجوز أن تبنى على قبور المسلمين؟ قلت: قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر المسلمين عفت فبنى قوم عليها مسجدا لم أر بذلك بأسا، وذلك لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمين لدفن موتاهم لا يجوز لأحد أن يملكها، فإذا درست واستغنى عن الدفن فيها جاز صرفها إلى المسجد، لأن المسجد أيضا وقف من أوقاف المسلمين لا يجوز تملكه لأحد، فمعناهما على هذا واحد. وذكر أصحابنا أن المسجد إذا خرب ودثر ولم يبق حوله جماعة، والمقبرة إذا عفت ودثرت تعود ملكًا لأربابها، فإذا عادت ملكًا يجوز أن يبنى موضع المسجد دارًا و موضع المقبرة مسجدًا و غير ذلك، فإذا لم يكن لها أرباب تكون لبيت المال. وفيه: أن القبر إذا لم يبق فيه بقية من الميت ومن ترابه المختلط بالصديد جازت الصلاة فيه."
(باب هل تنبش قبور مشرکي الجاهلیة ویتخذ مکانها مساجد، 4/ 179، ط:إدارة الطباعة المنيرية)
امداد الفتاوی میں ہے:
’’سوال:مسجد بڑھا کر قبر کو اندر کرلینا درست ہے یا نہیں ؟اور اس کے اوپر جوتیاں وغیرہ اتارنا درست ہے یا نہیں ؟
جواب:فی رد المحتار اذا بلی المیت و صار ترابا یجوز زرعه و البناء علیه ومقتضاہ جواز المشی فوقه، اس روایت سے معلوم ہوا کہ اگر قبر پرانی ہوجاوے کہ بغالب گمان اس میں مردہ خاک ہوگیا ہو تو یہ سب امور مذکورہ سوال جائز ہیں۔‘‘
(ج:1،ص:578،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
’’سوال:ایک مسجد ہے جس کا فرش چھوٹا ہے ،اس کی توسیع کی ضرورت ہے ،جو فرش بنا ہو اس کے آگے بڑھانے میں ایک قبر پڑتی ہے ۔کیا شرعا یہ گنجائش ہے کہ اس قبر پر ڈاٹ لگادی جائےا ور اس کو صحن مسجد میں لے لی جائے؟
جواب:اگر وہ قبر مملوکہ زمین میں ہے اور اتنی پرانی ہے کہ اس میں میت بالکل مٹی بن چکی ہے تو مالک کی اجازت سے اس زمین کو مسجد میں داخل کرنا درست ہے اور قبر کو بالکل ختم کردیا جائے ،اس کا کوئی نشان باقی نہ رکھا جائے ۔۔۔اور اگر قبر مسجد ہی کی زمین میں ہے تو بغیر کسی کی اجازت کے متولی اس کو فرش ِمسجد میں داخل کرسکتا ہے۔‘‘
(ج:14،ص:509،ط:جامعہ فاروقیہ کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604102444
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن