عرض ہے کہ ہمارے محلے کی مسجد کا سرکاری فنڈ (تقریبا 13 سے 14 روپے منظور ہواتھا)ہماری مسجد کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس پر کوارٹربنائے اور اس سے کرایہ وصول کرکے مسجد فنڈ میں جمع کرتے رہے۔پھر ہم نے کرائے اور چندے کے پیسوں سے ایک عوامی وقف حجرہ (محلے کے لوگوں کے لیے)کچھ کرسیاں اور میزیں خریدیں۔
اب استفتاء یہ ہے کہ :
1:کیا یہ خرید جائز ہے؟
2؟اگر جائز نہیں تو کیا اب وہ رقم مسجد کے فنڈ میں اپنی جیب سے جمع کرنا ضروری ہے؟
مسجد کے لیے حاصل ہونے والے چندے کی رقم کو مسجد کی ضرورت کے علاوہ کسی اور مصرف میں خرچ کرنا شرعا جائز نہیں تھا،یہ مسجد کے مال میں خیانت ہے،لہذا صورت مسئولہ میں اگر مسجد کے چندہ کی رقم سےمسجد کی ضرورت کے علاوہ کسی بھی مصرف میں خرچ کی گئی ہے تواس رقم کو مسجد کے چندے میں لوٹاکرمسجد کے مصرف خرچ کرنا ضروری ہے۔
الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:
"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة."
( كتاب الوقف ج4،ص445،ط:سعيد)
وفیہ ایضا:
"فإن كان الوقف معينا على شيء يصرف إليه....."
(کتاب الوقف،ج4،ص368،ط؛سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604102289
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن